مالی خسارے کی وجہ سے حکومت کو آئی ایم ایف کے ‘سخت نظرثانی’ کا سامنا

جولائی سے دسمبر 2019 ء تک کا مالی خسارہ جی ڈی پی کا 2.3، 995 ارب روپے رہا

جولائی سے دسمبر 2019 ء تک کا مالی خسارہ جی ڈی پی کا 2.3، 995 ارب روپے رہا

اسلام آباد ۔۔۔ نیوز ٹائم

سال 20-2019 ء کی پہلی ششماہی میں ملک کا مالی خسارہ حکومت کے اخراجات پر سخت کنٹرول کے باوجود جی ڈی پی کے 2.3 فیصد سے تجاوز کرنے کی وجہ سے پاکستانی حکام کو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے وفد کے دوسرے سہ ماہی کے ‘انتہائی سخت’ جائزے کا سامنا ہے۔ اخبار کی رپورٹ کے مطابق باخبر ذرائع نے بتایا کہ جولائی سے دسمبر 2019 ء تک کا مالی خسارہ جی ڈی پی کا 2.3، 995 ارب روپے رہا جو پہلی سہہ ماہی سے 0.6 فیصد زیادہ ہے جس کی وجہ اسی مدت میں بڑے پیمانے پر 2 کھرب 90 ارب روپے کا ریونیو شارٹ فال رہا۔ وفاقی حکومت نے جولائی سے دسمبر میں اخراجات 1 کھرب 83 ارب روپے تک محدود رکھے جو بجٹ میں مختص کیے گئے 4 کھرب 40 ارب روپے کا 42 فیصد ہیں۔

سینیئر حکام نے آئی ایم ایف کو بتایا کہ عوامی اخراجات پر پہلے 6 ماہ میں کوئی ضمنی گرانٹ جاری نہیں کی گئی اور حکومت سادگی کے وعدے پر عمل پیرا ہے۔ اس ہی عرصے کے دوران 19-2018ء میں مالی خسارہ جی ڈی پی کا 2.7 فیصد یا 1 کھرب 3 ارب روپے رہا تھا تاہم سالانہ خسارہ بجٹ میں مختص کیے گئے 4.9 فیصد کے مقابلے میں 8.9 فیصد رہا۔ ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف نے مالی سال کے پہلی ششماہی میں 3.2 فیصد کے خسارے کا تخمینہ لگایا تھا تاہم خسارہ تقریباً وہاں تک پہنچ گیا ہے اور خلا صرف 34 ارب روپے کی باقی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے آئی ایم ایف پروگرام کے تحت بنیادی توازن کے معیار پر بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا تاہم اس سے وفد کو متاثر نہیں کیا جا سکا۔

 آئی ایم کا وفد سمجھتا ہے یہ نہ ہی مستحکم ہے اور نہ ہی مطلوبہ ہے کیونکہ اس میں سے بیشتر پچھلے مالی سال سے رول اوورز کے ذریعے آئے تھے اور ریونیو کی ترقی میں اس سے تعاون حاصل نہیں ہے۔ آئی ایم ایف کے وفد سے مذاکرات میں شامل حکام کا کہنا تھا کہ ٹیکس شارٹ فال 7 کھرب 50 ارب روپے سے زائد رہے گا۔ ان کے مطابق مزید مالی ایڈجسٹمنٹ اور اضافی ریوینیو اقدامات کو ابتدائی بات چیت میں مختصر بیان کیا گیا تاہم ایسا جان بوجھ کے کیا گیا کیونکہ پالیسی کی سطح پر بحث 11 فروری (منگل کے روز) سے ہو گی اور کمزور معاشی حالات کے پیش نظر اضافی ٹیکس اقدامات کے امکانات ففٹی ففٹی ہیں۔

ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے حکام کا کہنا تھا کہ ریوینیو اہداف میں مزید گہرائی تک نظرثانی کے امکانات 10 سے 20 فیصد ہیں کیونکہ آئی ایم ایف نے پہلے ہی ٹیکس اہداف میں 55 کھرب 3 ارب روپے سے 52 کھرب 70 ارب کمی کی اجازت دے دی ہے۔ حکام کا کہنا تھا کہ غیر محصولاتی ریونیو کو بجٹ میں مختص کیے گئے 8 کھرب 95 ارب روپے سے بڑھا کر 16 کھرب روپے تک کیا جا سکتا ہے  جو ٹیلی کام ریونیو کی بحالی، اسٹیٹ بینک کے منافع کی وجہ سے پہلے ہی نظرثانی کر کے 12 کھرب روپے کیا جا چکا تھا۔

حکام نے تجویز دی کہ پیٹرولیم میں چھوٹ اور گیس انفراسٹرکچر سیس کی شرح، نجکاری عمل اور مرکزی بینک کا منافع اور تیل کی قیمتوں کی وجہ سے عوامی اداروں کے منافع پر نظرثانی سے اس حوالے سے مزید مدد ملے گی۔ ان کے مطابق صرف ریونیو ہی نہیں بلکہ توانائی کے شعبے میں بھی کارکردگی شیڈول کے مطابق نہیں رہی،  حکام گردشی قرضے کو وعدے کے مطابق قابو نہیں کر سکے جبکہ بجلی پیدا کرنے والوں کی صلاحیتی ادائیگیوں کے لیے بجلی کے ٹیرف کی دوسری سہہ ماہی کے ایڈجسٹمنٹ کا اعلان کرنے میں بھی پیچھے رہے ہیں۔

آئی ایم ایف کے وفد کی نظرثانی 13 فروری کو مکمل ہو گی جس دوران اس بات کا تعین کیا جائے گا 39 ماہ کا پروگرام کے تحت حکومت کو مارچ کے مہینے میں 45 کروڑ ڈالر ملیں گے یا نہیں جس کی حکومت کو غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر اور مارکیٹ میں اعتماد بحال کرنے کے لیے سخت ضرورت ہے۔ پاکستان کو اب تک 1 ارب 44 کروڑ ڈالر مل چکیں گے جو جولائی میں دیے گئے 99 کروڑ 10 لاکھ ڈالر اور دسمبر میں 15 کروڑ 20 لاکھ ڈالر کی شکل میں دیے گئے تھے۔ آئی ایم ایف کے 6 ارب ڈالر کے پروگرام میں سے ملک کو 2023 ء تک 1 ارب 65 ارب ڈالر ملے ہیں جس میں سے وہ 4 ارب 36 کروڑ ڈالر آئی ایم ایف کو اس ہی عرصے کے دوران واپس کرے گا۔

No comments.

Leave a Reply