شمالی کوریا میں امریکا کی شکست۔۔۔

شمالی کوریا کے حکمران کم جونگ ان نے 2020 ء کے سال نو پیغام میں اپنے ملک کے نیوکلر پروگرام کی توسیع کا اعلان کر دیا

شمالی کوریا کے حکمران کم جونگ ان نے 2020 ء کے سال نو پیغام میں اپنے ملک کے نیوکلر پروگرام کی توسیع کا اعلان کر دیا

نیوز ٹائم

شمالی کوریا کے حکمران کم جونگ ان نے 2020 ء کے سال نو پیغام میں اپنے ملک کے نیوکلر پروگرام کی توسیع کا اعلان کر دیا اور امید ہے کہ مستقبل قریب میں شمالی کوریا کسی نئے نیوکلر ہتھیار کا اجرا کرے گا۔ جزیرہ نما کوریا کو امریکا نے 1945ء میں تقسیم کر دیا۔ شروع ہی سے امریکا، شمالی کوریا کی آزادی کو ختم کرنے کے درپے رہا ہے پچھلے اسی (80) سال سے امریکا، شمالی کوریا کے خلاف سفارتی اور معاشی جنگ لڑ رہا ہے اور شکستوں پر شکستیں کھا رہا ہے۔ اس طویل جنگ کو جاری رکھنے کی وجہ یہ نہیں کہ شمالی کوریا، امریکا کے لیے کوئی گمبھیر فوجی خطرہ پیش کرتا ہے۔

جزیرہ نمائے کوریا تین سامراجی نظاموں، امریکا، روس اور چین کی سرحدوں سے ملحق ہے۔ فی الحال امریکی سامراج کی مشرقی بعید کی چوکیاں جنوبی کوریا، جاپان اور تائیوان ہیں۔ جاپان اور جنوبی کوریا غیر محفوظ ہیں کیونکہ ان کے عوام (اور خواص کے ایک طبقہ میں) امریکا سے آزادی حاصل کرنے کی شدید آرزو ہے اور 1945ء تک جاپان خود ایک سامراجی نظام قائم کیے ہوا تھا۔ دور حاضر میں امریکی سامراج سے موثر عسکری نبردآزمائی کے دو اہم ذرائع عوامی ہتھیار بندی اور نیوکلر ہتھیاروں کا حصول ہیں۔ شمالی کوریا کے پاس یہ دونوں ہتھیار موجود ہیں اور اصل خطرہ یہ ہے کہ اگر امریکا، شمالی کوریا کو ایک نیوکلر قوت کے طور پر قبول کرے تو اس کا مشرق بعید کا سامراجی نظام متزلزل ہو جائے گا نہ صرف جنوبی کوریا اور جاپان بلکہ فلپائین (Philpin) ، انڈونیشیا اور ملائیشیا بھی نیوکلیر ہتھیاروں کے حصول کے لیے جدوجہد کریں گے بلکہ اس کو امریکی سامراج سے خلاصی اور اپنی قومی خودمختاری کے فروغ کا ذریعہ بنائیں گے۔

لہذا امریکا، شمالی کوریا کے خلاف اپنی ہاری ہوئی جنگ جاری رکھنے پر مجبور ہے۔ امریکا کو امید ہے کہ اس کی انتہائی دبائو (maximum pressure) کی حکمت عملی شمالی کوریا (maximum pressure) کی حکمت عملی، شمالی کوریا کو اپنی نیوکلر صلاحیت خود تباہ کرنے پر آمادہ کر دے گی۔ لیکن انتہائی دبائو کی یہ حکمت عملی 1949ء سے آج تک ناکام ہوئی ہے اور مستقل ناکام ہوتی چلی آ رہی ہے۔ چین میں کیوبا میں وینزویلا وغیرہ میں اور شمالی کوریا میں اس کی ناکامی نوشتہ دیوار ہے۔ شمالی کوریا کو امریکا معاشی دہشت گردی کی بھاری قیمت دینا پڑی ہے اور بحیثیت ایک سرمایہ دارانہ ملک شمالی کوریا کے خواص و عوام معاشی ترقی کے حصول کے شدید خواہاں ہیں  لیکن دیگر اشتراکی سرمایہ دارانہ ملکوں کی طرح شمالی کوریا بھی قومی خودمختاری کو معاشی فوائد کے عوض قربان کرنے پر تیار نہیں،  لہذا کم جونگ ان کی حکومت کو اپنے عوام کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ امریکی انتہائی دبائو اور معاشی دہشت گردی (sanctions) کمزور پڑتی جا رہی ہے اور شمالی کوریا کی حوصلہ مندی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور اس کے سامراجی حلیف روس اور چین اس کی استقامت دیکھ کر اس کی پشت پناہی پر آمادہ ہو رہے ہیں۔ روس اور چین اپنے سامراجی مقاصد کے حصول کے لیے امریکا سے نبردآزمائی کبھی قبول نہیں کرتے۔ اس لیے انہوں نے اقوام متحدہ میں شمالی کوریا کو ریاست کے خلاف امریکی معاشی دہشت گردی اقوام متحدہ (sanction) کو veto نہیں کیا لیکن ان (sanction) کو غیر موثر بنانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔

اپریل 2018 ء میں کم جونگ ان کی حکومت نے نیوکلیئر تجربات پر یکطرفہ تحدید کا اعلان کیا تھا۔ انہوں نے (subcritical) تجربات کے وقوع اور re-entry ٹیکنالوجی کے حصول کا دعوی کیا  اور فرمایا کہ شمالی کوریا کی نیوکلیئر استطاعت مکمل دفاع کی سطح کو عبور کرتی ہے۔  اس وقت سے لے کر پہلی جنوری 2020 ء تک شمالی کوریا اپنے نیوکلیئر پروگرام کو منجمد کرنے اور جزیرہ نمائے کوریا کو مکمل طور پر نیوکلیئر ہتھیاروں سے پاک کرنے کی تجویز پیش کرتا رہا۔  اس کا مطلب جنوبی کوریا میں امریکا کے THAD (Terminal high Altitude Defense) پروگرام کے حصول  اور جنوبی کوریا سے امریکی نیوکلیئر ہتھیاروں (جو 2020 ء میں تقریبا 900 کے قریب ہیں) کا اخراج ہے۔ اس پورے دورانیے میں امریکا کا اصرار رہا ہے کہ شمالی کوریا یکطرفہ طور پر اپنے نیوکلیئر ہتھیاروں کو مکمل طور پر تباہ کر کے کورین جزیرہ نما میں امریکی باجگزاری کو قبول کرے۔  2018 کے بعد سے شمالی کوریا کے خلاف امریکی دہشت گرد کاروائیوں میں (Vietnam) اور (Pannmutijon) کے (summits) کے باوجود مستقل اضافہ ہوتا رہا۔  شمالی کوریا کے پاس فی الحال 60 کے قریب نیوکلیئر ہتھیار موجود ہیں جنوری 2020 ء کا اعلان ثابت کرتا ہے کہ پچھلے چند سال میں شمالی کوریا کی پوزیشن مستحکم ہوئی ہے اور وہ اپنے نیوکلر پروگرام پر خود ساختہ تحدید کو ختم کرنے پر آمادہ ہے۔

اسباق: یہ ہمارے لیے ایک خوش آئند خبر ہے اس کی دو وجوہات ہیں: سرمایہ دارانہ لبرل اور سرمایہ دارانہ اشتراکی قوتوں میں جتنا فروغ پائے گا یہ دونوں قوتیں اتنی ہی کمزور ہوں گی  اور غیر سرمایہ دارانہ قوتوں (یعنی اسلامی قوتوں) کے استحکام اور فروغ کے مواقع بہتر ہوتے جائیں گے۔ اسلامی ریاستوں (ایران، افغانستان اور مفتوحات) کی خودمختاری اور اقدامی دائرہ کار میں اضافہ ہو گا لیکن سامراج کی اس چپقلش اور تضاد سے فائدہ اٹھانے کے لیے مشرق وسطی میں شیعہ، سنی اتحاد ناگزیر ہے اس علاقے میں سامراج کی باجگزار حکومتیں کمزور پڑتی جائیں گی۔

نیوکلیئر اسلحہ کمزوروں کا ہتھیار ہے اگر شمالی کوریا کا نیوکلیئر تحفظ مستحکم ہو گیا تو مشرق بعید پر سامراج کی گرفت کمزور پڑتی چلی جائے گی  اور مشرق بعید اور دیگر علاقوں میں کئی مسلم ممالک انڈونیشیا، ملائیشیا، ایران، ترکی، سعودی عرب، الجزائر اور نائجیریا بھی نیوکلیئر ہتھیاروں کے حصول کو ناگزیر قیاس کرنے لگیں گے ان ممالک میں بھی سامراج کے پسپائی کی راہ ہموار ہو گی اور نتیجتاً اسلامی انقلابی جدوجہد کے مواقع بہتر ہوں گے۔ لیکن اس بات کا بھی احساس بھی ہونا چاہیے کہ نیوکلیئر ہتھیاروں کا حصول سامراجی گرفت ہے نجات حاصل کرنے کے لیے کافی نہیں عوامی، عسکری ادارتی صف بندی اور عوامی نظریاتی اور جذباتی تحرک بھی ضروری ہے۔ عوامی نظریاتی اور عسکری صف بندی کے بغیر سامراج گھس پیٹھیوں کے لیے عوامی اور ریاستی تخریب کاری ایک آسان کام ہے  جو چیز ونیزویلا، کیوبا، شمالی کوریا اور ایران کو سامراجی فوج کشی سے محفوظ رکھے ہوئے ہے وہ عوامی نظریاتی اور عسکری ادارتی صف بندی ہے  اور ان تجربات سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اس نوعیت کی عوامی ادارتی صف بندی کو مستحکم کرنے کے لیے جمہوری عمل کی تحدید بھی ضروری ہے۔

No comments.

Leave a Reply