دو ہزار انیس کے دوران پاکستان کی معیشت کو سخت چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا

دو ہزار انیس کے دوران پاکستان کی معیشت کو سخت چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا

دو ہزار انیس کے دوران پاکستان کی معیشت کو سخت چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا

کراچی ۔۔۔ نیوز ٹائم

دو ہزار انیس کے دوران پاکستان کی معیشت کو سخت چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا، بلند تاریخی خسارے کے ساتھ روپے کی قدر میں تاریخی کمی بھی اسی سال رونما ہوئی۔ شرح سود میں مسلسل اضافے کے باوجود افراط زر میں کمی نہ آ سکی۔ حکومت کی معاشی ٹیم درآمدات کو محدود کرنے میں کامیاب رہی تاہم برآمدات میں خاطر خواہ اضافہ نہ ہو سکا۔  زرمبادلہ کے تیزی سے گرتے ہوئے ذخائر کو مستحکم کرنے کے لیے حکومت کو آئی ایم ایف سے رجوع کرنا پڑا دوسری جانب دہشت گردوں کو سرمائے کی فراہمی کی روک تھام کے لیے ایف اے ٹی ایف کی پابندیوں کے کالے بادل بھی معیشت پر منڈلاتے رہے۔

سرمایہ کاری محدود رہنے کے باعث حکومت کو معاشی توازن پیدا کرنے کے لیے قرضوں پر انحصار بڑھانا پڑ گیا اور معیشت قرض کی دلدل میں گہرائی تک دھنستی چلی گئی۔ لگ بھگ 44 ارب ڈالر کے قرضوں کے معاہدے طے کیے گئے جن میں آئی ایم ایف سے 6 ارب ڈالر، متحدہ عرب امارات نے 6 ارب 20 کروڑ ڈالر، چین نے 2 ارب 20 کروڑ ڈالر، ورلڈ بینک نے 2 ارب 47 کروڑ ڈالر فراہم کیے جبکہ ایشیائی ترقیاتی بینک نے 11 ارب 50 کروڑ ڈالر کے قرضوں کی فراہمی کے معاہدے کیے، فرانس نے بھی پاکستان کی معاشی مدد کے لیے 11 ارب ڈالر سے زائد مالیت کے قرضے فراہم کرنے کا معاہدہ کیا جبکہ قطر نے بھی 3 ارب ڈالر کی فراہمی کے معاہدے کیے۔

آئی ایم ایف سے معاہدے کے تحت پاکستان نے روپے کی قدر کو مارکیٹ کی طاقتوں پر چھوڑ دیا جس کے نتیجے میں جون 2019 ء میں روپے کی قیمت ڈالر کے مقابلے میں تاریخ کی بلند ترین سطح 164 روپے سے تجاوز کر گئی جو گزشتہ سال 139 روپے کی سطح پر تھی غیر ملکی قرضوں اور معاونت کے نتیجے میں زرمبادلہ کے ذخائر مستحکم ہونے سے سال کے اختتام پر روپے کی قدر 154 روپے کی سطح پر آ گئی۔ زرمبادلہ کے ذخائر میں سال 2019 ء کے دوران 3 ارب 83 کروڑ ڈالر کا اضافہ ہوا سرکاری ذخائر 3 ارب 70 کروڑ ڈالر اضافے سے 10 ارب 90 کروڑ ڈالر کی سطح تک پہنچ گئے۔ سال 2019 ء  کے دوران عوام کو بے لگام مہنگائی کا سامنا کرنا پڑا۔ نومبر 2019ء میں افراط زر کی شرح 2008 ء کے مقابلے میں دگنی ہو گئی اور نومبر میں افراط زر کی شرح 12.28 فیصد تک بلند ہو گئی جو ساڑھے 4 سال میں مہنگائی کی بلند ترین سطح ہے۔

No comments.

Leave a Reply