خبردار کیا تھا افغانستان میں غیر جانبدار صدارتی انتخاب کرانا ناممکن ہے: حامد کرزئی

سابق افغان صدر حامد کرزئی

سابق افغان صدر حامد کرزئی

کابل ۔۔۔ نیوز ٹائم

افغانستان میں صدارتی انتخاب کے حتمی  نتائج کے بعد ملک میں سیاسی بحران کی کیفیت پیدا ہو گئی ہے۔ نومنتخب صدر اشرف غنی کے مقابلے میں ان کے دونوں صدارتی حریفوں نے انتخاب کے نتائج کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ اس ضمن میں سابق افغان صدر حامد کرزئی نے کہا کہ میں نے پہلے ہی لوگوں کے ساتھ اپنے خدشات کا اظہار کیا تھا کہ موجودہ حالات میں شفاف اور غیر جانبدار صدارتی انتخاب کرانا ناممکن ہے اور اس کے نتیجے میں بحران پیدا ہو گا اور امن کا عمل بھی متاثر ہو گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ میں نے تمام سماجی اور سیاسی قوتوں کے اتحاد کے لیے بھی زور دیا کہ وہ امن کے حصول کے لیے مل کر کام کریں اور اسی کو اہم ترین مسئلہ تصور کریں۔ حامد کرزئی نے کہا کہ یہ عمل جو انتخابات کے نام پر ہمارے عوام پر مسلط کیا گیا وہ ایک غیر قومی عمل تھا اور جمہوری اصولوں اور اقدار کے منافی تھا جس میں توقع سے کہیں کم ٹرن آئوٹ اس حقیقت کی عکاسی کرتا ہے۔

خیال رہے کہ ناکام ہونے والے صدارتی امیدوار اور اشرف غنی کے سیاسی حریف عبد اللہ اللہ نے نتائج کے اعلان کے بعد یکطرفہ کامیابی کا اعلان کر دیا۔ انہوں نے فتح کا دعوی کرتے ہوئے کہا کہ وہ جلد ہی ایک جامع حکومت کا اعلان کریں گے۔ دوسری جانب ناکام ہونے والے دوسرے صدارتی امیدوار رحمت اللہ نبیل (Rahmatullah Nabil) نے نتائج کو ‘فراڈ’ اور ایسے جمہوریت کی موت کا دن قرار دیا۔ رحمت اللہ نبیل (Rahmatullah Nabil) نے کہا کہ ‘فراڈ کے نتیجے میں بننے والی حکومت ناقابل قبول ہے۔ انہوں نے مفاہمت پر مبنی حکومت تشکیل دینے کا مطالبہ کر دیا۔ رحمت اللہ نبیل نے کہا کہ عبد اللہ عبد اللہ اور اشرف غنی موجودہ صورتحال کے تناظر میں اپنے عہدوں سے الگ ہو جائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ موجودہ صورتحال کے پیش نظر عبد اللہ عبد اللہ اور اشرف غنی دونوں اپنے اقتدار سے سبکدوش ہو جائیں۔ انہوں نے کہا کہ ‘انتخابات کو تحلیل کر دیا جانا چاہیے اور طالبان کو آ کر ملک گیر جنگ بندی کا اعلان کرنا چاہیے  تاکہ ہم مفاہمت کی حکومت کے قیام کی طرف گامزن ہو سکیں جہاں ذاتی اور انفرادی مفادات نہ ہوں۔ علاوہ ازیں اقوام متحدہ مشن برائے افغانستان (یو این اے ایم اے) نے صدارتی انتخاب کے نتائج پر کہا کہ یو این اے ایم اے نے افغان انتخابی حکام کو ممکنہ مدد فراہم کی۔ یو این اے ایم اے نے اپنے بیان میں کہا کہ انتخابی قوانین غیر جانبدار رویہ اختیار کیا گیا اور فراڈ سے لڑنے کے لیے تمام ممکنہ اقدامات اٹھائے گئے۔ اعلامیے میں کہا گیا کہ اقوام متحدہ افغانستان کے عوام، اداروں بشمول تمام سیاسی جماعتوں کو غیر جابندار اور ماہرانہ رائے فراہم کرتا رہے گا۔

واضح رہے کہ 18 فروری کو افغانستان کے آزاد الیکشن کمیشن نے گزشتہ برس ستمبر میں منعقدہ صدارتی انتخاب کا حتمی نتیجہ جاری کیا تھا اور اشرف غنی کی کامیابی کا باضابطہ اعلان کر دیا جس کے ساتھ ہی وہ دوسری مرتبہ افغانستان کے صدر منتخب ہو گئے ہیں۔ افغان الیکشن کمیشن نے اعلان کیا تھا کہ گزشتہ سال 28 ستمبر کو ہونے والے انتخاب میں اشرف غنی نے 9 لاکھ 23 ہزار 592 ووٹ یعنی 50.64 فیصد ووٹ حاصل کیے۔ ان کے حریف اور چیف ایگزیکٹو عبد اللہ عبد اللہ نے 7 لاکھ 20 ہزار 841 ووٹ یعنی 39.52 فیصد ووٹ حاصل کیے تھے۔

خیال رہے کہ بیلٹ کی گنتی میں تکنیکی مسائل اور دھاندلی کے الزامات کے سبب نتائج ایک عرصے سے التوا کا شکار تھے۔ جنگ زدہ افغانستان 3 کروڑ 50 لاکھ نفوس پر مشتمل آبادی والا ملک ہے جہاں 96 لاکھ شہری رائے دہندگان کی حیثیت سے رجسٹرڈ ہوئے جبکہ ملک بھر میں 4 ہزار 900 پولنگ اسٹیشن قائم کیے گئے تھے۔ الیکشن کمیشن کی سربراہ حوا عالم نورستانی (Hawa Alam Nuristani)  نے بتایا تھا کہ 96 لاکھ ووٹرز میں سے صرف 18 لاکھ نے حق رائے دہی استعمال کیا۔ طالبان کے حملوں کے سبب انتخابات خوف کے سائے میں منعقد ہوئے جس کے سبب ووٹر ٹرن آئوٹ بہت کم رہا تھا  حالانکہ اس کی نسبت 2014 ء کے انتخابات میں تقریباً 50 فیصد افراد نے حق رائے دہی کا استعمال کیا تھا۔ اس سے قبل 2014 ء کے انتخابات میں اشرف غنی اور عبد اللہ عبد اللہ دونوں نے کامیابی کا دعوی کیا تھا اور پھر امریکا کے دبائو پر ایک مشترکہ حکومت قائم کی گئی تھی جس کے بعد اشرف غنی صدر اور عبد اللہ عبد اللہ چیف ایگزیکٹو بن گئے تھے۔ یاد رہے کہ صدارتی انتخاب میں اشرف غنی کی کامیابی کا اعلان ایک ایسے موقع پر ہوا ہے جب امریکا اور طالبان کے درمیان امن معاہدے پر دستخط آئندہ چند روز میں متوقع ہیں جس کے نتیجے میں ملک سے امریکی افواج کا انخلا ہو جائے گا۔

No comments.

Leave a Reply