معاشی اعبتار سے ایران میں امریکا کی شکست

امریکہ کی سخت ترین پابندیوں کے باوجود ایرانی معیشت مستحکم اور مضبوط ہے

امریکہ کی سخت ترین پابندیوں کے باوجود ایرانی معیشت مستحکم اور مضبوط ہے

نیوز ٹائم

امریکا نے ایران پر قبضہ 1952ء سے 1979ء تک شاہ کی پٹھو حکومت کے ذریعہ قائم رکھا۔ اس پورے دورانیے میں علمائے ایران عوامی اسلامی مزاحمتی جدوجہد کو منظم کرتے رہے اور 1975/76ء تک ملک کے طول و عرض میں اسلامی اقتدار کی ایسی ادارتی صف بندی ممکن ہو گئی جس کے زیر اثر محلہ، بازار، درس گاہیں، مقامی اور مرکزی ریاستی انتظامیہ اور فوج کے کئی محکمے آ گئے۔ جب انقلاب برپا کیا گیا تو علمائے اسلام کی قیادت میں ہر سطح پر مخلصین دین منظم بھی تھے اور متحرک بھی اور سامراجی معاشی اور ریاستی استبدا منتشر ہو چکا تھا۔ 1979 کی سیاسی پسپائی سے مایوس ہو کر امریکا نے صدام حسین کے ذریعہ ایران پر حملہ کر دیا اور جب صدام اسلامی انقلاب کو شکست دینے میں ناکام ہو گیا تو اس وقت سے امریکی سامراج نے ایران کے خلاف معاشی جنگ جاری کر دی اور تین دہایاں ہونے کو آئیں یہ معاشی جنگ جاری ہے۔

اس معاشی جنگ میں امریکا شکستوں پر شکست کھا رہا ہے۔ امریکی سامراج اور اس کے پٹھو بین الاقوامی ادارہ آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، یو این ڈی پی وغیرہ اپنی روایتی بے غیرتی اور بے شرمی کے ساتھ مسلسل یہ جھوٹ پھیلا رہے ہیں کہ ایرانی معیشت تباہی کے دہانے پر کھڑی ہوئی ہے اور آج آناً فاناً ایران فنا ہو جائے گا۔ اسلامی انقلابیوں کے لیے ضروری ہے کہ اس بے غیرت دروغ گوئی کا پردہ چاک کر دیں۔ حقیقت یہ ہے کہ سخت ترین پابندیوں کے باوجود ایرانی معیشت مستحکم اور مضبوط ہے۔ آج ایران کی عمومی قومی پیداوار (GDP) کا حجم 500 بلین ڈالر ہے۔ انقلاب سے قبل یہ حجم 95 بلین ڈالر تھا۔

صحت عامہ کے شعبہ میں ایران نے نمایاں ترقی کی ہے 1979 میں (یعنی انقلاب سے قبل) پیدائش شرح اموات (IMR)  ایک ہزار بچوں میں سے 111 تھی آج یہ شرح گر کر صرف 9 رہ گئی ہے جو دنیا میں کم ترین شرح پیدائش و اموات (IMR) میں شامل ہے۔ مغربی ایشیا میں (IMR) کی شرح فی ہزار 30 ہے۔ پانچ سال سے کم عمر بچوں کی شرح اموات 1979ء میں 1000 میں 174 تھی آج یہ شرح 35 رہ گئی ہے۔ انقلاب سے قبل (یعنی 1979ء میں) ایک لاکھ میں سے 245 خواتین دوران زچگی شہید ہو جایا کرتی تھیں آج یہ شرح گر کر صرف 20 رہ گئی ہے۔انقلاب سے قبل ایرانیوں کی اوسطا عمر 56 سال تھی آج یہ بڑھ کر 73 ہو گئی ہے اس دوران ایرانی خواتین کی اوسطا عمر 57 سال سے بڑھ کر 77 سال ہو گئی ہے۔ 1979 سے لے کر آج تک ایرانی ڈاکٹروں کی تعداد میں 700 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ہسپتالوں کی تعداد دوگنی سے بھی زیادہ ہو گئی ہے۔ انقلاب سے قبل ایران میں صرف ملکی ضرورت کی 25فیصد ادویات تیار کی جاتی تھیں آج ایران ادویات کی فراہمی میں خود کفیل ہے 97 فیصد استعمال کی جانے والی ادویات ایران میں بنائی جاتی ہیں۔ آج 65 ملین ایرانیوں کو طبی کفالت (health insurance) میسر ہے۔

امریکی سامراج پابندیوں کے دو کلیدی اہداف ہیں۔ ایرانی سیاحت اور ایرانی توانائی (بالخصوص تیل) کی برآمدات۔ ان دونوں محاذوں پر ایران نے امریکی سامراج کو شکست فاش دی ہے۔ ایران بین الاقوامی سیاحت (tourism) کا دوسرا سب سے بڑا مرکز ہے اس کے باوجود ایرانی سیاحت شعبہ پر شرع مطہرہ کی عائد تمام پابندیاں نافذ ہیں۔ 2018ء میں ایران میں 7.3 ملین سیاح آئے جو 2017 ء کے مقابلہ میں تقریباً 45 فیصد زیادہ تھے۔ پچھلے چند سال میں سیاحوں میں مستقل اضافہ ہو رہا ہے اور توقع ہے کہ 2025ء تک یہ تعداد سالانہ 25 ملین تک بڑھ جائے گی۔ پابندیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ایران نے طویل المدت منصوبہ بندی کی ہے۔

ایران کو اس بات کا پورا احساس ہے کہ عالمی تیل کی منڈی میں امریکی سامراج اور اس کی باج گزار حکومتیں قابض ہیں۔ یہ حکمت عملی دیرپا کامیابی کی ضامن ہے اس کے ذریعہ ایرانی معیشت میں تیل پر انحصار کو بتدریج کم کر کے صنعتی تجارتی اور زرعی شعبہ پر زور دیا جا رہا ہے۔ اس حکمت عملی کی کامیابی کا واضح ثبوت اس بات سے ملتا ہے کہ آج ایرانی برآمدی محصولات (export revenue) کا صرف 3 فیصد حصہ تیل کی برآمدات سے حاصل ہوتا ہے۔ انقلاب اسلامی سے قبل یہ شرح اوسطا 95 فیصد ہوا کرتی تھی۔ ایرانی معیشت انسانی اور قدرتی وسائل سے مالا مال ہے۔ انہوں نے تمام مشکلات اور پابندیوں کے باوجود دنیا کی فعال ترین آئی ٹی صنعت کار فرما کر دی ہے اور اس آئی ٹی صنعت کو اتنا مستحکم کیا ہے کہ امریکا ہزار کوششوں کے باوجود ایران پر موثر cyber attack کرنے سے عاجز ہے۔

ایران معدنی وسائل سے مالامال ہے، تیل کے ذخائر سعودی عرب کے بعد دنیا کے تمام ممالک سے زیادہ ہیں، ایران کی اسٹیل کی صنعت نے ہوشربا ترقی کی ہے اور آج ایران دنیا کا 12واں سب سے بڑا اسٹیل پیدا کرنے والا اور 8واں سب سے بڑا سیمنٹ پیدا کرنے والا ملک ہے۔ پلاسٹک کی پیدوار کے لحاظ سے ایران دنیا کا تیسرا سب سے بڑا اور Turquoise کی پیداوار میں دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے۔ دنیا میں صنعتی پتھر کی پیداوار میں ایران کا نمبر تیسرا اور لوہے کی پیدوار میں 8واں ہے۔ تانبے اور zinc کی پیداوار بھی بہت کثرت سے ہوتی ہے اور ان معدنیات کا استعمال قومی صنعتوں میں کیا جاتا ہے۔

بلاشبہ ایران مشرق وسطی کا سب سے تیزی ترقی کرنے والا صنعتی ملک ہے۔ صرف کاروں کی صنعت میں ایران میں 15,000 سے زائد فیکٹریاں کام کر رہی ہیں 2018 ء میں 11 لاکھ سے زیادہ کاریں ایران میں بنائی گئیں اور 40 ممالک میں ایرانی automotive منصوعات فروخت کی گئیں۔ ایران بڑے پیمانے پر ادویات commercial drugs بھی برآمد کرتا ہے۔ زرعی شعبہ کی پیداوار میں بھی حیرت انگیز اضافہ ہوا ہے آج ایران دنیا کے سب سے بڑے اجناس (grain) پیداواری مراکز میں شامل ہے 195 ممالک میں اس کا نمبر 13واں ہے۔ 1979 سے آج تک ایران میں اجناس کی پیداوار میں 20 گنا اضافہ ہوا ہے اور اب دنیا کے بہت بڑے گیہوں کی کاشت کرنے والے ممالک میں شامل ہے۔ ایران غذائی طور پر خود کفیل ہے اور پڑے پیمانے پر زرعی پیداوار برآمد کرتا ہے 2018-2019 ء میں ایرانی صنعتی اور معدنی شعبے کی پیداواری شرح 9.9 فیصد رہی۔ 2019-20 میں ایران میں صنعت کاری (investment) کی شرح نمو 20 فیصد رہی۔

ان حقائق سے واضح ہوتا ہے کہ امریکی سامراج کی پابندیاں اور Maximum pressure کی حکمت عملی کیوبا، ونیزویلا اور شمالی کوریا کی طرح ایران میں بھی ناکام ہو رہی ہے۔ بلکہ کیوبا، ونیزویلا اور شمالی کوریا کے مقابلہ میں ایرانی انقلابی حکمت عملی زیادہ کامیاب ہے اس کی دو وجوہات ہیں:  سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ ایرانی عوام مذہبی روحانیت اور جذباتیت سے سرشار ہیں، اشتراکیت سے نہیں۔ اشتراکیت ایک سرمایہ دارانہ نظریہ ہے، اشتراکی مخلصین کا جذبہ محرکہ حسد ہے ان میں عبدیت کا کوئی تصور موجود نہیں۔ اشتراکی مخلصین دنیا میں جنت بنانے کی نامعقول جدوجہد میں مشغول ہیں۔ ان کا مایوس ہو جانا ممکن ہے کیونکہ جیسا کہ مشرقی یورپ، ویتنام اور کمبوڈیا کی مثالوں سے ثابت ہے (اور سب سے زیادہ چین کی مثال سے ثابت ہوتا ہے)۔ اشتراکی جذبہ حسد ایک ایسا منفی جذبہ ہے جو لبرل جذبہ حرص سے شکست کھا جاتا ہے اور اشتراکی سرمایہ دارانہ نظام لبرل اور قوم پرستانہ سرمایہ دارانہ عالمگیریت میں ضم ہو جاتاہے۔

دوسری وجہ یہ ہے کہ ایران میں جو معاشی ساختی تبدیلیاں لائی گئی ہیں وہ نہ کیوبا میں لائی گئی ہیں نہ ونیزویلا میں نہ جنوبی کوریا میں۔ چار دہائیوں کے مختصر عرصہ میں ایران ایک صنعتی معیشت بننے میں کامیاب ہو گیا ایک ایسی صنعتی اور خدمتی معیشت جو غذائی طور پر خود کفیل ہے اور جس کا معاشی نظام قومی رسد اور طلب کی کارفرمائی پر منحصر ہے اور بین الاقوامی تجارت یا سرمایہ کاری پر منحصر نہیں۔ یہ کارنامہ نہ کیوبا انجام دے سکا نہ شمالی کوریا۔ اسلامی علما کی دوراندیشی، بصیرت اور حوصلہ مندی نے سامراج کو پوری دنیا میں شکست فاش دینے کی حکمت عملی واضح کر دی ہے۔

No comments.

Leave a Reply