افغان صدر نے طالبان قیدیوں کی رہائی کے لیے دستخط کر دیے، افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کا عمل شروع

افغان صدر نے طالبان قیدیوں کی رہائی کے لیے دستخط کر دیے

افغان صدر نے طالبان قیدیوں کی رہائی کے لیے دستخط کر دیے

کابل ۔۔۔ نیوز ٹائم

افغانستان کے صدر اشرف غنی طالبان قیدیوں کی رہائی کے صدارتی فرمان پر دستخط کر دیئے۔ غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ‘رائٹرز’ کے مطابق افغان صدارتی آفس سے جاری بیان میں کہا گیا کہ طالبان کے قیدیوں کی رہائی کی تفصیلات جلد سامنے لائی جائے گی۔ افغان صدر کے ترجمان صدیق صدیقی (Siddiq Siddiqui) نے ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا کہ افغان حکومت نے فریم ورک طے کر لیا ہے جس کے تحت کشیدگی میں بڑی حد تک کمی لانے کے لیے قیدیوں کا تبادلہ ہو گا۔  دوسری جانب طالبان نے افغان حکومت کی جانب سے اپنے قیدیوں کی رہائی کے امکان کے باعث گاڑیاں روانہ کر دیں اور کہا کہ وہ بھی معاہدے کی پاسداری کرتے ہوئے 1000 سرکاری قیدیوں کو حوالے کریں گے۔ دوحہ میں طالبان کے سینئر رہنما نے کہا کہ طالبان قیدیوں کو لینے کے لیے گاڑیاں بگرام جیل کے قریب علاقے میں روانہ کی گئی ہیں۔

اشرف غنی نے گزشتہ روز دوسری مدت کے لیے افغانستان کے صدر کے طور پر حلف اٹھانے کے بعد کہا تھا کہ طالبان کے ساتھ قیدیوں کی رہائی کا طریقہ کار طے پا گیا ہے اور اس حوالے سے صدارتی فرمان جاری کر دیا جائے گا۔ واضح رہے کہ افغان صدر نے 2 مارچ کو اپنے بیان میں طالبان قیدیوں کی رہائی کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ امریکا اور طالبان کے درمیان معاہدے میں قیدیوں کی رہائی سے متعلق شق کو نہیں مانتے۔ اشرف غنی نے کابل میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا تھا کہ افغان حکومت نے 5 ہزار طالبان قیدیوں کی رہائی کے حوالے سے کوئی وعدہ نہیں کیا۔ افغانستان میں امن کے قیام کے لیے اس معاہدے کی جزوی حمایت جاری رکھنے کا عزم ظاہر کرتے ہوئے  انہوں نے واضح کیا تھا کہ طالبان کی جانب سے 100 قیدیوں کی رہائی کے بدلے میں 5 ہزار طالبان جنگجوئوں کو نہیں چھوڑا جائے گا۔ افغان صدر کا کہنا تھا کہ یہ امریکا کے دائرہ اختیار میں نہیں تھا بلکہ وہ صرف ایک سہولت کار کا کردار ادا کر رہے تھے۔

دوسری طرف طالبان نے افغان صدر کے بیان پر ردعمل میں کہا تھا کہ جب تک ہمارے 5 ہزار قیدی رہا نہیں کیے جاتے اس وقت تک بین الافغان مذاکرات میں شریک نہیں ہوں گے اور طویل جنگ کے خاتمے کے لیے اس کو بنیادی قدم قرار دیا تھا۔ طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا تھا کہ اگر ہمارے 5 ہزار قیدی رہا نہیں ہوئے تو بین الافغان مذاکرات نہیں ہوں گے،  اس تعداد میں 100 یا 200 کی کمی بیشی ہو سکتی ہے جس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ یاد رہے کہ افغان طالبا اور امریکا کے درمیان 29 فروری کو امن معاہدہ ہوا تھا جس پر امریکی نمائندے زلمے خلیل زاد اور طالبان کے سیاسی امور کے سربراہ ملا عبد الغنی نے دستخط کیے تھے۔

اس وقت امریکا کے 13000 فوجی افغانستان میں موجود ہیں

اس وقت امریکا کے 13000 فوجی افغانستان میں موجود ہیں

ادھر  امریکا نے طالبان کے ساتھ امن معاہدے کے تحت پہلا قدم اٹھاتے ہوئے افغانستان سے اپنی افواج کا انخلا شروع کر دیا ہے۔ امریکی خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق افغانستان میں امریکا اور طالبان کے درمیان 18 سال سے زائد عرصے سے جاری امریکی تاریخ کی طویل ترین جنگ کے خاتمے کے لیے امریکا اور طالبان کے درمیان افغانستان میں پائیدار امن 29 فروری ایک معاہدہ ہوا تھا  جس کے تحت امریکا نے اپنی افواج کے افغانستان سے انخلا کا عمل شروع کر دیا ہے۔   اس معاہدے کے تحت اگلا مرحلہ بین الافغان مذاکرات کا ہو گا جس میں طالبان سمیت تمام فریقین ملک کے مستقبل کے حوالے سے مذاکرات کے ذریعے لائحہ عمل طے کریں گے۔

پیر کو افغان صدر اشرف غنی اور ان کے سیاسی حریف عبداللہ عبداللہ نے الگ الگ تقریبات میں صدر کے عہدے کا حلف اٹھایا  اور ان دونوں کی جانب سے حلف اٹھائے جانے کے بعد طالبان سے مذاکرات کھٹائی میں پڑتے نظر آ رہے ہیں۔ تاہم اشرف غنی کا کہنا تھا کہ وہ طالبان سے مذاکرات کے لیے ایک ٹیم تشکیل دیں گے اور انہوں نے طالبان سے قیدیوں کی رہائی کا وعدہ کیا ہے اور امریکا کی جانب سے ان کے اس اعلان کو سراہا گیا ہے۔ افغان حکومت میں حالیہ افراتفری کے باعث امن معاہدے کے حوالے سے امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد کی مشکلات میں اضافہ ہو گیا ہے  جہاں وہ افغانستان کی قیادت کو یکجا کر کے معاملے کے جلد از جلد حل کے لیے کوشاں ہیں۔ منگل کو سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر زلمے خلیل زاد نے اپنے پیغام میں کہا کہ دونوں رہنمائوں کے درمیان وسیع پیمانے پر تسلیم شدہ حکومت کے قیام پر اتفاق ہو جائے گا،  ہم تعاون کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔

دوسری جانب افغانستان میں امریکی فوجی ترجمان سونی لیگیٹ (Col. Sonny Leggett) نے اپنے بیان میں کہا کہ امریکا نے معاہدے کے تحت 135 دنوں میں اپنی افواج کم کر کے 8600 کرنے کا آغاز کر دیا ہے۔ خیال رہے کہ اس وقت امریکا کے 13000 فوجی افغانستان میں موجود ہیں جس میں سے 8000 فوجی افغانستان نیشنل سیکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کو تربیت فراہم کرتے ہیں  جبکہ دیگر 5 ہزار طالبان انسداد دہشت گردی کے آپریشنز اور افغان حکومت کی درخواست پر فوجی معاونت کو سرانجام دیتے ہیں۔ ادھر مائیک پومپیو نے واضح کیا کہ وہ افغانستان میں مساوی حکومتوں کے قیام کے سخت مخالف ہیں  جہاں پیر کو عبداللہ عبداللہ نے اپنے نمائندے کو نائب صدر کا منصب سنبھالنے کے لیے بھیج دیا تھا تاکہ وہ اشرف غنی کے نمائندے سے قبل ہی عہدہ سنبھال لے۔ امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ نے سیاسی اختلافات کو طاقت کے ذریعے حل کرنے کے حوالے سے سخت انتباہ جاری کرتے ہوئے فریقین کو تحمل کے ساتھ معاملے کے حل کا مشورہ دیا۔ امریکا کے مطابق 18 ماہ میں افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے منصوبے کا بات سے تعلق ہے کہ طالبان، افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کا حصہ بنیں گے لیکن اس معاہدے کو کہیں بھی طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات کی کامیابی سے مشروط قرار نہیں دیا گیا۔

واضح رہے کہ 29 فروری کو قطر میں امریکا اور طالبان کے مابین افغان امن معاہدے پر دستخط ہوئے تھے جسے افغانستان میں 19 سالہ جنگ کے خاتمے کا باعث سمجھا جا رہا ہے۔ 4 صفحات پر مشتمل افغان امن معاہدہ 4 مرکزی حصوں پر مشتمل ہے۔ طالبان افغانستان کی سرزمین کسی بھی ایسی تنظیم، گروہ یا انفرادی شخص کو استعمال کرنے نہیں دیں گے جس سے امریکا یا اس کے اتحادیوں کو خطرہ ہو گا۔ افغانستان سے امریکی اور اس کے اتحادی فوجیوں کا انخلا یقینی بنایا جائے گا۔ طالبان 10 مارچ 2020 ء سے انٹرا افغان مذاکرات کا عمل شروع کریں گے۔ انٹرا افغان مذاکرات کے بعد افغانستان میں سیاسی عمل سے متعلق لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔

No comments.

Leave a Reply