شہزادہ ولیم کو بادشاہ بنائے جانے کا امکان

اس بات کے امکانات زیادہ ہو گئے ہیں کہ جلد ہی عارضی طور پر شہزادہ ولیم بادشاہت کے فرائض سرانجام دیں گے

اس بات کے امکانات زیادہ ہو گئے ہیں کہ جلد ہی عارضی طور پر شہزادہ ولیم بادشاہت کے فرائض سرانجام دیں گے

لندن ۔۔۔ نیوز ٹائم

کورونا وائرس کے تیزی سے پھیلائو سے جہاں دنیا بھر میں کاروبار متاثر ہوئے ہیں وہیں کئی چیزوں کی قلت بھی پیدا ہو گئی ہے اور انتظامی معاملات کو چلانے میں بھی دنیا مشکلات کا شکار ہے۔ کورونا وائرس سے بچنے کے لیے سماجی فاصلہ یا خود کو رضاکارانہ طور پر گھر تک محدود کرنے کی وجہ سے دنیا بھر کے کئی اعلی عہدے غیر فعال بن گئے ہیں جس وجہ سے کچھ انتظامی مسائل بھی پیش آ رہے ہیں۔ اور ایسے ہی مسائل سے برطانوی شاہی خاندان بھی دوچار ہے، جس کے بعد اس بات کے امکانات زیادہ ہو گئے ہیں کہ جلد ہی عارضی طور پر شہزادہ ولیم بادشاہت کے فرائض سرانجام دیں گے۔ جی ہاں، خبریں ہیں کہ ملکہ برطانیہ اور ان کے بیٹے شہزادہ چارلس کی جانب سے کورونا وائرس سے بچنے کے لیے شاہی محل چھوڑ کر دوسری جگہ منتقل ہونے کے بعد اس بات کے قوی امکانات پیدا ہو گئے ہیں کہ شہزادہ ولیم عارضی طور پر بادشاہت کے فرائض سرانجام دیں گے۔

برطانوی اخبار دی ایکسپریس نے اپنی رپورٹ میں شاہی تجزیہ کاروں کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ عالمی وبا کی وجہ سے ملکہ برطانیہ اور ان کے جانشنین بیٹے شہزادہ چارلس کی جانب سے خود کو انتظامی سرگرمیوں سے محدود کیے جانے کے بعد یہ امکانات پیدا ہو گئے ہیں کہ شہزادہ ولیم عارضی طور پر بادشاہ بنیں گے۔ شاہی تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ اگرچہ تاحال ملکہ برطانیہ اور ان کے بیٹے خود کو قرنطینہ میں بند کرنے کا اعلان نہیں کیا تاہم اگر دونوں ایسا اعلان کرتے ہیں تو پھر شہزادہ ولیم بادشاہت سنبھال لیں گے۔ اسی حوالے سے برطانوی اخبار ڈیلی میل نے بھی شاہی محل کے معاملات کو دیکھنے والے تجزیہ نگاروں کے حوالے سے بتایا کہ چونکہ برطانوی وزارت صحت نے پہلے سے ہی اعلان کر رکھا ہے کہ جن افراد کی عمر 70 سال سے زائد ہے وہ کورونا وائرس کا شکار نہ ہونے کے باوجود خود کو قرنطینہ میں منتقل کر لیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ چونکہ ملکہ برطانیہ کی عمر 93 برس ہے جبکہ ان کے بیٹے شہزادہ چارلس کی عمر 71 برس ہے تو دونوں کو احتیاطی تدابیر کے پیش نظر قرنطینہ میں جانا پڑے گا جس کے بعد جسمانی طور پر بادشاہت کے فرائض سرانجام دینے کے لیے شہزادہ ولیم ہی دستیاب ہوں گے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق شہزادہ ولیم بادشاہت کے نمبر کے حوالے سے تیسرے نمبر پر ہیں اور چونکہ دوسرے نمبر پر ان کے 71 سالہ والد ہیں اور اگر وہ بھی زائد العمری کی وجہ سے قرنطینہ ہو گئے تو شہزادہ ولیم ہی آخری امید ہوں گے اور انہیں عارضی طور بادشاہ کی ذمہ داریاں نبھانا پڑیں گی۔ شاہی تجزیہ کاروں کی جانب سے شہزادہ ولیم کے عارضی طور پر بادشاہ بننے کے تجزیے اس وقت سامنے آئے جبکہ کچھ دن قبل ہی ملکہ برطانیہ نے شاہی محل چھوڑ دیا تھا۔

ملکہ برطانیہ نے 19 مارچ کو احتیاطی تدابیر کے پیش نظر اپنے شوہر کے ہمراہ لندن میں واقع شاہی محل بکنگھم پیلس چھوڑ دیا تھا اور وہ انگلینڈ کے شہر یارکشائر میں واقع شاہی قلعے ونڈسر منتقل ہو گئی تھیں۔ ملکہ برطانیہ اپنے ہمراہ ذاتی کتا بھی لے گئی تھیں اور وہاں منتقل ہونے کے بعد انہوں نے اپنے خصوصی پیغام کو عوام کو سماجی دوری اختیار کرنے کی ہدایت کی۔ یہ بھی خبریں ہیں کہ ملکہ برطانیہ کی جانب سے شاہی محل کو چھوڑنے کا فیصلہ اس وقت کیا گیا جب شاہی محل کے ایک اعلی عہدیدار میں کورونا وائرس کی تشخیص ہوئی۔ رپورٹس ہیں کہ جہاں ملکہ برطانیہ نے شاہی محل چھوڑا، وہیں انہوں نے اپنے ہی خاندان کے دیگر افراد سے ملنا جلنا بھی چھوڑ دیا ہے  اور انہوں نے اہلخانہ سے بات چیت کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال شروع کر دیا۔ جہاں ملکہ برطانیہ نے احتیاطی تدابیر کے پیش نظر شاہی محل کو چھوڑا، وہیں ان کے بیٹے اور بادشاہت کے حوالے سے دوسرے نمبر پر شہزادہ چارلس نے بھی اپنی اہلیہ کے ہمراہ شاہی محل چھوڑا اور وہ بھی اسکاٹ لینڈ منتقل ہو گئے تھے۔

ملکہ برطانیہ اور شہزادہ چارلس کی جانب سے شاہی محل کو چھوڑنے کے بعد اب خیال کیا جا رہا ہے کہ ممکنہ طور پر دونوں خود کو قرنطینہ میں منتقل کر لیں گے اور وہ 15 دن تک کسی بھی سرگرمی سے دور رہیں گے جس کے بعد ممکنہ طور پر شہزادہ ولیم بادشاہت کے فرائض سرانجام دیں گے۔ اسی طرح یہ بھی خیال کیا جا رہا ہے کہ اگر شہزادہ ولیم عارضی طور پر بادشاہ بنے تو شاہی محل کے دیگر عہدوں میں بھی عارضی تبدیلی آئے گی اور شاہی خاندان کے دیگر چند افراد بھی پہلی بار اعلی شاہی ذمہ داریاں نبھائیں گے۔تاہم ماہرین نے یہ بھی کہا کہ عین ممکن ہے کہ ملکہ برطانیہ اور شہزادہ چارلس خود کو قرنطینہ نہ کریں اور وہ صرف سرگرمیوں کو ہی محدود کر دیں اور اگر ایسا ہوتا ہے تو شہزادہ ولیم کے بادشاہ بننے کے امکانات ختم ہو جائیں گے۔

No comments.

Leave a Reply