وہ جاپانی جزیرہ جو جلد لاک ڈائون اٹھانے کے بعد دنیا کے لیے وارننگ بن گیا

 ہوکائیدو کے گورنر نومیچی سوزوکی نے 28 فروری ، 2020 کو ہوکائڈو کے صوبے میں نئی COVID-19 کورونا وائرس سے متعلق ایک اجلاس کے دوران ہنگامی حالت کا اعلان کیا۔

ہوکائیدو کے گورنر نومیچی سوزوکی نے 28 فروری ، 2020 کو ہوکائڈو کے صوبے میں نئی COVID-19 کورونا وائرس سے متعلق ایک اجلاس کے دوران ہنگامی حالت کا اعلان کیا۔

ہوکائیدو ۔۔۔ نیوز ٹائم

جاپان کا جزیرہ ہوکائیدو نئے نوول کوروناوائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 کی وبا کے حوالے سے دنیا کو ایک سبق دے رہا ہے کہ بہت جلد لاک ڈائون ختم کرنا بہت زیادہ نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔ شمالی جاپان میں واقع اس جزیرے نے وبا کے آغاز پر ہی فوری ردعمل ظاہر کرتے ہوئے 3 ہفتے کا لاک ڈائون لگا دیا تھا مگر پھر گورنر نے پابندیاں ختم کر دیں، جس کے بعد بیماری کی دوسری لہر نے اسے بری طرح متاثر کیا۔ لاک ڈائون ختم کرنے کے 26 دن بعد ہی جزیرے میں دوبارہ لاک ڈائون لگا دیا گیا۔ مقامی حکومت کے ردعمل میں تعاون کرنے والے ہوکائیدو میڈیکل ایسوسی ایشن کے چیئرمین ڈاکٹر کیوشی ناگاسی (Dr. Kiyoshi Nagase) کا کہنا ہے کہ اب وہ خواہش کرتے ہیں کہ کچھ مختلف کیا ہوتا، میں اب پچھتاتا ہوں، ہمیں پہلے لاک ڈائون کو ختم نہیں کرنا چاہیے تھا۔ ہوکائیدو کا تجربہ اب دنیا بھر کے رہنمائوں کے لیے سبق ہے جو لاک ڈائون کو نرم کرنے پر غور کر رہے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ کاروباری اداروں کے دبائو پر بہت جلد لاک ڈائون ختم کرنا وبا کو مزید تیز کر سکتا ہے۔

ہوکائیدو یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی سیاست کے نائب سربراہ کازوتو سوزوکی (Kazuto Suzuki) نے کہا ہوکائیدو سے ثابت ہوتا ہے، مثال کے طور پر امریکا میں انفرادی طور پر گورنرز کی جانب سے ریاستوں کو کھولا جا رہا ہے وہ بہت خطرناک ہے،  یقینا آپ بین الریاستی ٹریفک کو بند نہیں کر سکتے، مگر آپ کو کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے، ہم اب جانتے ہیں کہ اگر پہلی لہر کو کنٹرول بھی کر لیتے ہیں تو بھی پرسکون ہونے کی ضرورت نہیں۔ ہوکائیدو کی آبادی 53 لاکھ ہے اور یہ جاپان کا پہلا حصہ تھا جہاں یہ وبا پھیلنا شروع ہوئی تھی اور فوری طور پر ردعمل ظاہر کیا گیا۔ جاپان میں اب تک 12 ہزار سے زائد کیسز کی تصدیق ہوئی ہے مگر کیسز کی تعداد میں گزشتہ 2 ہفتے کے دوران دوگنا اضافہ ہوا ہے جو تشویشناک ہے۔

ابتدائی ایکشن:

ہوکائیدو میں 31 جنوری کو سالانہ اسنو فیسٹیول منعقد ہوا تھا جس میں 20 لاکھ سے زائد افراد نے شرکت کی تھی، جن میں سے بیشتر چینی سیاح تھے جو نئے قمری سال کے موقع پر تعطیلات منا رہے تھے۔ اس فیسٹیول کے دوران مقامی ڈاکٹر نے کوروناوائرس کے پہلے مریض کو دیکھا جو ووہان سے تعلق رکھنے والے ایک خاتون تھی، جس کے بعد متعدد چینی سیاح بیمار ہو گئے اور بہت جلد وائرس مقامی افراد میں پھیلنا شروع ہو گیا۔ پہلے کیس کے ایک ماہ بعد یعنی 28 فروری کو کیسز کی تعداد 66 تک پہنچ گئی تھی اور اس موقع پر گورنر نے ریاستی ایمرجنسی کا اعلان کیا۔ اسکولوں کو بند کر دیا گیا جبکہ متعدد ریسٹورنٹس اور کاروبار پر بھی پابندی عائد کی گئی، جس کی عوام نے بھی پابندی کی اور خود کو گھروں میں بند کر لیا۔

تحفظ کا غلط احساس:

مارچ کے وسط میں بحران ختم ہوتا نظر آتا ہے اور نئے کیسز نہ ہونے کے برابر رہ گئے، مگر کاروباری اداروں کی جانب سے شکایات بڑھنے لگیں۔ کاروباری حلقوں نے ریاستی ایمرجنسی کی مخالفت شروع کر دی اور اس پر 18 مارچ کو گورنر نے پابندیوں کو نرم کر دیا۔ حکومتی ردعمل میں مدد فراہم کرنے ڈاکٹر ناگاسی (Dr. Kiyoshi Nagase) کے مطابق اس وقت حکام کو وائرس کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں تھیں اور یہ نہیں جانتے کہ یہ کتنی تیزی سے پھیلتا ہے۔ سائنسی ڈیٹا نہ ہونے کی وجہ سے ڈاکٹروں نے اپنی سفارشات اس خیال پر مرتب کیں کہ کوروناوائرس انفلوائنزا کی طرح پھیلتا ہے اور اب ڈاکٹر ناگاسی کو پچھتاوا ہے کہ ایسا کیوں کیا۔

دوسری لہر پہلے سے زیادہ بڑی تھی:

ڈاکٹر ناگاسی کے مطابق پابندیاں اٹھانے کا اعلان 3 روزہ تعطیلات سے قبل کیا گیا اور شہری گلیوں میں نکل آئے اور ریسٹورنٹس میں جمع ہو کر کئی ہفتوں کی قید کے خاتمے کا جشن منایا، جس سے ممکنہ طور پر وائرس کی دوسری لہر پھیلنا شروع ہوئی۔ ہوکائیدو میں پابندیوں کو نرم کرنے سے جاپان کے دیگر حصوں میں بھی لوگوں نے اس بیماری کو زیادہ خطرناک سمجھنا چھوڑ دیا اور اپنے روزمرہ کے کاموں میں مصروف ہو گئے۔ اس سے بھی دوسری لہر میں شدت آئی اور لاک ڈائون ختم ہونے کے 3 ہفتے بعد ایک دن میں ریکارڈ 18 کیسز سامنے آئے۔ 14 اپریل کو پھر دوسری بار لاک ڈائون لگا دیا گیا اور دوسری لہر میں 279 کیسز رپورت ہوئے جو پہلی لہر کے مقابلے میں 80 فیصد زیادہ ہیں، جبکہ رواں ہفتے بدھ تک یہ تعداد 495 تک پہنچ گئی تھی۔ اس بار کاروباری حلقوں نے بھی سخت لاک ڈائون کا گرمجوشی سے خیرمقدم کیا۔ ڈاکٹر ناگاسی (Dr. Kiyoshi Nagase) نے کہا کہ جزیرے نے سخت سبق سیکھ لیا ہے اور جب تک ویکسین یا دوا سامنے نہیں آ جاتی، ہر ایک کو ذاتی ذمہ داری کا ثبوت دے کر سمجھنا ہو گا ممکنہ طور پر اگلے سال تک محفوظ طریقے سے اس طرح کے لاک ڈائون کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔

No comments.

Leave a Reply