چین کا تائیوان کو ہتھیار فروخت کرنے والی امریکی کمپنیوں پر پابندی کا اعلان

چین کا تائیوان کو ہتھیار فروخت کرنے والی امریکی کمپنیوں پر پابندی کا اعلان

چین کا تائیوان کو ہتھیار فروخت کرنے والی امریکی کمپنیوں پر پابندی کا اعلان

بیجنگ ۔۔۔ نیوز ٹائم

چین نے تائیوان کو ہتھیار فروخت کرنے والی امریکی کمپنیوں پر پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کر دیا ہے عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق چینی دفتر خارجہ کے ترجمان ژاو لیجیان (Zhao Lijian) نے پریس بریفنگ میں صحافیوں کو بتایا کہ چین کو اپنے قومی مفاد کے تحفظ کے لیے پابندیاں عائد کرنے سے بڑھ کر بھی اقدمات کرنا پڑے تو کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ امریکا اور  تائیوان  کے درمیان معاہدے کے لیے ہتھیار فراہم کرنے والی بڑی کمپنیوں لاکہیڈ مارٹن (Lockheed Mortin)  ، بوئنگ ڈیفینس (Boeing Defense) ، ریتھیون (Raytheon) اور دیگر پر پابندیاں عائد کی جائیں گی۔ انہوں نے کہا کہ تائیوان کو امریکا کی جانب سے ہتھیار کی فروخت میں شریک کمپنیوں کے ساتھ  افراد کو بھی کڑی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔  تاہم ترجمان کی جانب سے پابندیوں کی تفصیلات نہیں بتائی گئیں۔

واضح رہے کہ امریکا نے تائیوان کو سینسرز، میزائل سسٹم اور گولہ بارود  وغیرہ کا  1.8 ارب ڈالر کے جنگی سازوسامان فروخت کرنے کے معاہدے کی منظوری دی تھی۔ دیگر کئی ممالک کی طرح امریکا کے تائیوان کے ساتھ باقاعدہ سفارتی تعلقات نہیں ہیں۔ تاہم قانون کے تحت امریکا اس کی دفاعی ضروریات فراہم کرنے کا پابند ہے۔ دوسری جانب چین نہ صرف تائیوان کو اپنا حصہ سمجھتا ہے بلکہ اس پر اختیار حاصل کرنے کے لیے طاقت کے استعمال کو بھی جائز تصور کرتا ہے۔  ٹرمپ انتظامیہ نے تائیوان کو دفاعی ساز و سامان کی فراہمی سمیت جنوبی بحیرہ چین، ہانگ کانگ اور انسانی حقوق سمیت کئی محاذ کھول رکھے ہیں۔

چین کی جانب سے جن کمپنیوں پر پابندی کا اعلان کیا گیا ہے ان میں سے عالمی خبر رساں ادارے کے رابطہ  کرنے پر بوئنگ (Boeing Defense) اور لاکہیڈ مارٹن (Lockheed Mortin)نے کہا ہے کہ وہ امریکی حکومت کے ضابطوں کی پابند ہیں اور ان کی چین میں موجودگی محدود نوعیت کی ہے۔  ریتھیون (Raytheon)نے اس حوالے سے فوری کوئی جواب نہیں دیا ہے۔ یاد رہے کہ اس سے قبل تائیوان اور امریکا کے مابین بڑھتے ہوئے مراسم پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے چینی صدر نے  اپنی فوج کو ممکنہ جنگ کے لیے تیار رہنے کی ہدایت کی تھی۔

No comments.

Leave a Reply