چین، امریکا کشیدگی ایٹمی تصادم میں تبدیل ہو سکتی ہے، عالمی ماہرین

امریکا فوجی حکمت عملی کے تحت بھارت کو چین کے خلاف اتحادی بنا رہا ہے

امریکا فوجی حکمت عملی کے تحت بھارت کو چین کے خلاف اتحادی بنا رہا ہے

نیوز ٹائم

امریکا فوجی حکمت عملی کے تحت بھارت کو چین کے خلاف اتحادی بنا رہا ہے۔ امریکا، چین کو ایک ابھرتے ہوئے حریف جبکہ چین، امریکا کو ایک خطرے کے طور پر دیکھتا ہے۔ جب تک چین، امریکی خطرہ محسوس کرتا رہے گا یہ خطہ دبائوکا شکار رہے گا۔ سرحدی کشیدگی کے ایٹمی تصادم میں تبدیل ہونے کے امکانات معدوم ہیں۔ چین کی فوجی برتری کے باعث بھارت اس کے خلاف زمینی پیشقدمی نہیں کر سکے گا۔ جنوبی ایشیا کے ماحول میں تیزی سے تبدیلی آ سکتی ہے جو کہ غلط اندازوں کے نتیجے میں خطرناک کشیدگی کا باعث بن سکتی ہے۔ دنیا کو بحیثیت مجموعی غیر یقینی، غیر متوقع صورتحال اور عدم استحکام کا سامنا ہے۔ ان خیالات کا اظہار راہول رائے چودھری، سینئر فیلو برائے جنوبی ایشیا، انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ آف اسٹڑٹیجک سٹڈیز، ڈاکٹر ٹونگ ڑاو، سینئر فیلو کارنیگی سینٹر برائے عالمی پالیسی (بیجینگ)، مائیکل کوگل مین،  ڈپٹی ڈائریکڑ اور سینئر فیلو، وڈرو ولسن سینٹر، واشنگٹن ڈی سی، لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) اشفاق ندیم احمد، سابق چیف آف جنرل اسٹاف اور ائیر چیف مارشل (ریٹائرڈ) کلیم سعادت نیچین، بھارت سرحدی جھڑپیں،  جنوبی ایشیا کے تزویراتی ماحول پر اثرات کے موضوع پر اسلام آباد میں منعقد، سینٹر فار ائیر سپیس اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز کے زیراہتمام ایک بین الاقوامی سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔سیمینار کی میزبانی کے فرائض ڈائریکٹر نیو کلیئر پالیسی اور حکمت عملی سید محمد علی نے انجام دی۔

راہول رائے چودھری نے کہا کہ حالیہ چین، بھارت سرحدی کشیدگی نے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو خراب کیا ہے۔ دفاعی پالیسی پر بڑھتی ہوئی توجہ بھارت کے لیے خطرات سے خالی نہیں ہے۔ ڈاکٹر ٹونگ ڑاو نے کہا کہ چین اور بھارت کے مابین احساس کا شدید فرق پایا جاتا ہے۔  چین سمجھتا ہے کہ بھارت نے جموں کشمیر کی خصوصی بحیثیت ختم کر کے اکسائی چن کو جموں اور کشمیر کا حصہ قرار دے کر خطے کی صورتحال کو تبدیل کرنے کی کوشش کی ہے۔ بھارت کے اس قسم کے اقدامات نے چینی افواج کو بھی متحرک کر دیا کہ وہ ملک کی قومی سلامتی کا دفاع کریں۔ اس کے برعکس بھارت یہ سمجھا کہ چین سرحدی خطے میں تبدیلی کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کی کوششوں کے باوجود درپیش تنازع کا جلد حل ممکن نہیں۔ ڈپٹی ڈائریکڑ اور سینئر فیلو، وڈروولسن سینٹر، واشنگٹن ڈی سی نے کہا کہ لداخ کشیدگی نے بھارت کے سفارتی مسائل میں اضافہ کر دیا ہے اوراس کی پاکستان اور چین کے ساتھ مخاصمت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ جنوبی ایشیا کے ماحول میں تیزی سے تبدیلی آ سکتی ہے جو کہ غلط اندازوں کے نتیجے میں خطرناک کشیدگی کا باعث بن سکتی ہے۔

دہلی اور اسلام آباد دونوں کو تشویش ہے کہ دوسرا ملک لداخ کشیدگی اس کو نقصان پہنچانے کے لیے نہ استعمال کر لے۔ کوگل مین نے کہا کہ اگرچہ کئی امریکی رہنمائوں نے چین کو لداخ کشیدگی کے دوران تنقید کا نشانہ بنایاہے،  البتہ جو بائیڈن کی امریکی انتظامیہ چین کے ساتھ ممکنہ تعاون اور انڈو پیسفک حکمت عملی کی جانب ازسرنو جائزہ لے سکتی ہے۔ لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) اشفاق ندیم احمد نے کہا کہ اس خطے کی ترقی کا دارومدار علاقائی تنازعات میں کمی اور اس کے امریکا کے ساتھ تعلقات پر ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکا، چین کو ایک ابھرتے ہوئے حریف جبکہ چین، امریکا کو ایک خطرے کے طور پر دیکھتا ہے۔ جب تک چین امریکی خطرہ محسوس کرتا رہے گا یہ خطہ دبائو کا شکار رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ دیگر کئی نتائج کے علاوہ لداخ تنازع کے خطے کے تمام تر اہم ممالک پر نفسیاتی اثرات کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔  اس تنازع نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ چین، بھارت کو نچلی سطح کے تنازع میں شکست دینے کی اہلیت رکھتا ہے  تاہم دونوں ممالک 90 ارب ڈالر کی دوطرفہ تجارت کو مدنظر رکھتے ہوئے لداخ میں کشیدگی کو مزید نہیں بڑھائیں گے۔

No comments.

Leave a Reply