تباہ حال ملک شام اور اسد خاندان کے 50 برس

عرب ملک شام پر مسلسل 50 برسوں سے حکومت حافظ الاسد کا خاندان کر رہا ہے

عرب ملک شام پر مسلسل 50 برسوں سے حکومت حافظ الاسد کا خاندان کر رہا ہے

نیوز ٹائم

یہ 13 نومبر 1970ء کی بات ہے جب شامی ایئر فورس کے ایک نوجوان افسر نے ساحلی پہاڑی علاقے سے پرامن فوجی بغاوت کرتے ہوئے حکومت پر کنٹرول حاصل کر لیا۔  شام کی آزادی کے بعد مسلسل فوجی بغاوتوں میں یہ بھی ایک اور فوجی مداخلت خیال کی گئی اور کسی کو یقین نہیں تھا کہ اس فوجی بغاوت سے قائم ہونے والی حکومت پانچ دہائیاں مکمل کرے گی۔

الاسد خاندان:

عرب ملک شام پر مسلسل 50 برسوں سے حکومت حافظ الاسد کا خاندان کر رہا ہے۔ الاسد 6 اکتوبر 1930ء میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ 1971ء سے 2000 ء تک ملک کے صدر رہے۔ اس تمام عرصے میں وہ حکمران عرب سوشلسٹ بعث پارٹی کی نیشنل کمانڈ کے سیکرٹری جنرل بھی رہے۔  یہ منصب ایک طرح سے پارٹی اور حکومت کے سربراہ کا بھی ہے۔  عرب سوشلسٹ بعث پارٹی اس وقت بھی شام کی حکمران جماعت ہے۔  حافظ الاسد کے دور میں شامی عمال کو مجبور کیا جاتا تھا کہ وہ انہیں ‘المقدس کے القاب سے پکاریں۔  انہی کے حکومتی دور میں’  علوی فرقے کے افراد کو سیکیورٹی اور خفیہ اداروں میں خاص طور پر تعینات کیا گیا۔ ان کی رحلت کے بعد عبوری طور پر عبد الحلیم خدام صدر ضرور بنے لیکن جلد ہی پارٹی نے حافظ الاسد کے بیٹے بشار الاسد کو ملک کا سربراہ مقرر کر دیا۔  وہ بھی گزشتہ 20 برسوں سے حکومت سنبھالے ہوئے ہیں۔

دس برس سے جاری خانہ جنگی:

گزشتہ تقریبا ایک دہائی کے دوران شام میں اسد خاندان کے خلاف شروع ہونے والی خانہ جنگی میں ملک کے 500000 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ اقتصادی طور پر ملک شدید مندی کی حالت میں ہے اور معاشی حالات دگرگوں ہیں۔  بشار الاسد حکومت کے ہاتھ سے تقریباً سارا ملک مسلح مزاحمتی گروپوں کے ہاتھ میں چلا گیا تھا۔ ان گروپوں کو خلیج فارس کی عرب ریاستوں کی مالی و عسکری مدد حاصل تھی۔ مغربی اقوام بھی ان کی حامی تھیں۔ ان مزاحمتی مسلح گروپوں کے کارکنوں کو حکومت باغی قرار دیتی چلی آ رہی ہے۔ اب روس اور ایران کی عسکری مدد سے شدید تباہی سے دوچار ملک پر اسد حکومت کو پھر سے کنٹرول حاصل ہوا ہے۔ بشار الاسد کا نصف دورِ حکومت اس خانہ جنگی نے ہڑپ کر لیا ہے۔  تجزیہ کاروں کے مطابق صدر بشار الاسد کی حکومت کا قریب مکمل انحصار روس اور ایران جیسے اتحادی ممالک پر ہے۔

حکومتی طرز عمل:

ماہرین کا کہنا ہے کہ اسد خاندان کی حکومت کا تسلسل سوشلزم کے بجائے کرپشن زدہ حکومتی اہلکاروں کے مرہونِ منت ہے۔ اس اندازِ حکومت کو کلیپٹو کریسی (Kleptocracy) قرار دیا جاتا ہے۔  عرب دنیا کے معاملات پر نگاہ رکھنے والے تجزیہ کار کہتے ہیں کہ 50 برسوں سے حکومت کا طریقہ کار جابرانہ نظام، کمپرومائز کی کوئی گنجائش نہیں اور بربریت و ظلم ہے۔  ان ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اسد خاندان بھی کیوبا کے کاسترو فیملی اور شمالی کوریا کے کم خاندان کی طرح ملک کے اقتدار پر اپنا حق سمجھ کر حکومتی عمل جاری رکھے ہوئے ہے۔

نصف صدی سے جاری طرزِ حکومت:

ابھی ایسے آثار ظاہر نہیں ہوئے کہ اسد خاندان اقتدار میں 50 برس مکمل کرنے کی کوئی تقریب منانے کا منصوبہ رکھتا ہے۔ برطانوی دارالحکومت میں واقع معتبر تھنک ٹینک رائل چیتم ہائوس کے شعبہ مشرقِ وسطی اور شمالی افریقہ سے وابستہ ایک ریسرچر نیلقولیام کا کہنا ہے کہ یہ خاندان بے رحمانہ اور ظالمانہ انداز میں حکومت کرتے ہوئے ملک کو ایک ناکام، مجروح اور گم ہو جانے والے ملکوں کی منزل پر لے آیا ہے۔ 1982 میں حافظ الاسد نے حما میں اخوان المسلمون پر جو کریک ڈائون کیا اس میں ہزاروں افراد کو ہلاک کر دیا گیا تھا،  شامی انسانی حقوق کی کونسل ہلاک شدگان کی تعداد 40 ہزار کے قریب بیان کرتی ہے۔  بشار الاسد کے دور میں شروع ہونے والی خانہ جنگی میں ہلاکتیں لاکھوں میں ہیں۔  اس تناظر میں کہا جاتا ہے کہ اسد خاندان اندرون ملک میں ‘نو کمپرومائز کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔سابق امریکی صدر نے حافظ الاسد سے کئی ملاقاتیں کی تھیں۔  کلنٹن نے اپنی یاداشتوں میں مرحوم شامی صدر کو بے رحمانہ قرار دیا۔  بشار الاسد برطانہ سے میڈیکل کی تعلیم لے کر واپس لوٹے تھے۔  ناقدین کا کہنا ہے کہ حکومت سنبھالنے کے بعد انہوں نے اصلاحاتی پروگرام متعارف کرائے لیکن پھر وہ بھی اپنے والد کے نقشِ قدم پر چل نکلے۔

No comments.

Leave a Reply