امریکی صدارتی انتخابات کا تماشا اور جمہوریت کا عالمگیر بحران

امریکہ کے صدارتی انتخابات کا تماشا جاری ہے اس لیے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی شکست تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے

امریکہ کے صدارتی انتخابات کا تماشا جاری ہے اس لیے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی شکست تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے

نیوز ٹائم

جو بائیڈن امریکہ کے صدر منتخب ہو گئے ہیں، مگر امریکہ کے صدارتی انتخابات کا تماشا جاری ہے۔ اس لیے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی شکست تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ انتخابات چوری کیے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انتخابات کا عمل خاتمے سے بہت دور ہے۔ انہوں نے اس سلسلے میں عدالت سے رجوع کرنے کا اعلان کیا ہے۔جو بائیڈن نے 270 الیکٹورل ووٹ حاصل کیے ہیں، جبکہ ٹرمپ کو صرف 214 الیکٹورل ووٹ حاصل ہو سکے ہیں۔  امکان ہے کہ جو بائیڈن کے الیکٹورل ووٹوں کی تعداد بڑھ کر 306 ہو جائے گی۔

امریکہ کی جمہوریت دنیا کی سب سے مضبوط جمہوریت کہلاتی ہے، مگر اِس بار امریکہ کا انتخابی عمل اپنی مجموعی فضا کے اعتبار سے تیسری دنیا کا ملک نظر آ رہا تھا۔ جو بائیڈن نے 7 نومبر 2020ء کو فتح حاصل کی، مگر 6 نومبر کے اخبارات امریکی انتخابات کی جو تصویر پیش کر رہے تھے وہ ہر اعتبار سے شرمناک تھی۔ امریکہ کے صدارتی انتخابات کے دوسرے روز بھی امریکہ کے نئے صدر کا فیصلہ نہیں ہو سکا۔ جو بائیڈن فتح کے قریب ہیں، مگر ڈونلڈ ٹرمپ نے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات لگائے ہیں، انہوں نے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ دھاندلی کے ثبوت مل چکے ہیں، اب ہم نتائج کو چیلنج کرنے جا رہے ہیں، جو بائیڈن نے جن ریاستوں میں فتح کا اعلان کیا ہے ہم انہیں ووٹر فراڈ اور ریاستی الیکشن فراڈ کی بنیاد پر چیلنج کریں گے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے دھاندلی کے الزامات کے بعد متعدد ریاستوں میں حالات کشیدہ ہو گئے ہیں۔ مظاہروں اور ہنگاموں کے ساتھ پولیس اور مظاہرین میں جھڑپیں ہوئی ہیں اور 50 سے زیادہ لوگوں کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔ واشنگٹن میں جو بائیڈن اور ڈونلڈ ٹرمپ کے حامی ایک دوسرے کے مقابل آ گئے ہیں۔ پولیس نے انہیں منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس استعمال کی۔

جو بائیڈن کے حامیوں نے ٹرمپ سے وائٹ ہائوس خالی کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ریاست مشی گن میں ڈونلڈ ٹرمپ کے حامیوں نے ووٹوں کی گنتی معطل کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے ووٹوں کی گنتی کے ایک مرکز کا گھیرائو کر لیا۔ ہیوسٹن میں جو بائیڈن کے حامیوں نے مظاہرہ کیا۔  انہوں نے کہا کہ وہ فاشسٹ امریکہ کو قبول نہیں کرتے۔  اوریگون میں ٹرمپ مخالف پرتشدد مظاہرے کے بعد نیشنل گارڈ کو فعال کر دیا گیا ہے۔ پولیس نے بعض مظاہرین کو گرفتار کر لیا ہے۔ گرفتار افراد کے پاس سے ہتھوڑے اور ایک رائفل برآمد ہوئی ہے۔ بین الاقوامی مبصرین نے اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے کہا ہے کہ انتخابات داغدار ہو گئے ہیں۔

تیسری دنیا کے اکثر ملکوں میں جمہوریت اور اس کا انتخابی عمل ایک تماشا ہے، اور امریکہ کے انتخابات بھی ایک تماشا ثابت ہوئے ہیں۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو First World اور Third world کی جمہوریت میں کوئی فرق ہی نہیں۔ تیسری دنیا کی جمہوریت ہمیشہ دھاندلی زدہ ہوتی ہے، اور امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے انتخابی عمل کو دھاندلی زدہ قرار دیا ہے۔  ڈونلڈ ٹرمپ کے حامیوں نے کہا ہے کہ بعض علاقوں میں ان لوگوں کے ووٹ بھی ڈالے گئے ہیں جو مر چکے ہیں،  ان لوگوں کے ووٹ بھی بھگتائے گئے ہیں جو علاقے میں رہتے ہی نہیں، ان لوگوں کے ووٹ بھی ڈالے گئے ہیں جن کے پاس قانونی دستاویزات ہی نہیں ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو امریکہ کے انتخابات میں دھاندلی کا مکمل منظرنامہ موجود ہے۔

تیسری دنیا کی جمہوریت کی ایک نشانی یہ ہے کہ ہارنے والا کبھی اپنی شکست تسلیم نہیں کرتا، اور امریکی انتخابات میں ڈونلد ٹرمپ نے بھی انتخابی نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ تیسری دنیا کی جمہوریتوں میں حریف ایک دوسرے کے مقابل آتے ہیں اور طاقت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ امریکی انتخابات میں یہ عمل کئی جگہوں پر دیکھنے میں آیا۔ تیسری دنیا کے ملکوں کی جمہوریت میں جو کچھ ہوتا ہے اس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ وہاں کی جمہوریت نئی ہے، اس نے ابھی جڑیں نہیں پکڑیں۔ مگر امریکہ کی جمہوریت ڈھائی سو سال پرانی ہے، اور اس کو تناور درخت باور کرایا جاتا ہے، مگر 2020ء کے انتخابات نے اس جمہوریت کو پوری طرح آشکار یا Expose کر دیا ہے، اور یہ حقیقت دنیا کے سامنے آ گئی ہے کہ تیسری دنیا کی جمہوریت کی طرح امریکی جمہوریت بھی ایک تماشا ہے۔

یہاں سوال یہ ہے کہ امریکی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کی شکست اور جو بائیڈن کی فتح کا کیا مفہوم ہے؟ چار سال قبل ڈونلڈ ٹرمپ کامیاب ہوئے تھے تو ہم نے انہی کالموں میں عرض کیا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی امریکہ کے ظاہر پر امریکہ کے باطن کی فتح ہے۔  امریکہ کا باطن قدامت پرستی ہے اور امریکہ کا ظاہر لبرل ہے۔  میلکم ایکس نے اپنی خودنوشت میں کہیں لکھا ہے کہ قدامت پسند بھیڑیے سے لڑنا آسان اور لبرل لومڑی سے لڑنا مشکل ہے۔ اس اعتبار سے ڈونلڈ ٹرمپ ایک قدامت پسند بھیڑیا تھا اور جو بائیڈن ایک لبرل لومڑی ہے۔  اس تناظر میں دیکھا جائے تو اِس بار کے امریکی انتخابات میں لبرل لومڑی نے قدامت پسند بھیڑیے کو شکست دے دی ہے۔ اس فتح و شکست کا ایک اور مفہوم ہے، اور وہ یہ کہ امریکہ کا باطن سخت گیر ہے اور امریکہ کا ظاہر ڈپلومیٹک ہے۔ چنانچہ جو بائیڈن کی فتح اور ٹرمپ کی شکست کے معنی یہ ہیں کہ ڈپلومیسی نے سخت گیری کو شکست سے دوچار کر دیا ہے۔ لیکن امریکہ کی ڈپلومیسی سے نمٹنا اس کی سخت گیری کے ساتھ نمٹنے سے زیادہ مشکل ہے۔

امریکہ نے افغانستان پر جنگ مسلط کی مگر طالبان نے امریکہ کو کھلی جنگ میں شکست سے دوچار کر دیا، یہاں تک کہ امریکہ طالبان سے مذاکرات کی بھیک مانگتا نظر آیا۔ لیکن امریکہ کی ڈپلومیسی قوموں کو دھوکا دیتی ہے۔ وہ آئی ایم ایف کے ذریعے قوموں کو معاشی شکنجے میں جکڑتی ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے ذریعے قوموں کی آزادی سے کھیلتی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی شکست اور جو بائیڈن کی فتح کو کورونا اور معیشت کے تناظر میں بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کے مقبول رہنما بن کر ابھرے تھے۔  ان کا دعوی تھا کہ وہ امریکہ کو ایک بار پھر سے عظیم بنائیں گے۔ ان کے دور میں امریکی معیشت نے غیر معمولی ترقی کی تھی اور بے روزگاری کی شرح انتہائی کم ہوئی تھی۔ ٹرمپ نے کامیابی کے ساتھ چین کی تجارتی بالادستی کو چیلنج کیا اور چین کو ایسے سمجھوتوں پر مجبور کیا جن سے امریکہ کو اربوں ڈالر کا فائدہ ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ انتخابات سے ایک سال قبل امریکہ میں ان کا کوئی سیاسی حریف نہیں تھا۔ رائے عامہ کے جائزوں میں جو بائیڈن ان سے پیچھے تھے۔ امریکی دل و جان سے ڈونلڈ ٹرمپ پر فدا تھے۔ ان پر ایک درجن سے زیادہ خواتین کے ساتھ زیادتی کے الزامات لگے مگر امریکیوں نے اِن الزامات کا نوٹس لینے سے انکار کر دیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ اپنے وزیروں اور مشیروں کو تیزی کے ساتھ بدلتے رہے، مگر امریکیوں نے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کو ایسا کرنے کا حق ہے۔ لیکن کورونا کی وبا نے امریکہ کے سیاسی منظرنامے کو بدلنے میں اہم کردار ادا کیا۔  کورونا نے ایک کروڑ امریکیوں کو بیمار کر دیا، دو کروڑ سے زیادہ امریکیوں کو بے روزگار کر دیا، امریکہ کی معیشت کو کسادبازاری کا شکار کر دیا۔ اتفاق سے ڈونلڈ ٹرمپ کورونا کے سلسلے میں درست طرزِعمل کا مظاہرہ نہ کر سکے۔ پہلے تو انہوں نے کورونا کو سنجیدہ مسئلہ ہی تسلیم نہیں کیا۔  پھر انہوں نے اس سلسلے میں چین پر الزام تراشی شروع کر دی۔  پھر انہوں نے تاثر دیا کہ امریکہ کورونا کی ویکسین تیار کرنے ہی والا ہے، چنانچہ کورونا سے گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ مگر کورونا امریکہ میں پنجے گاڑ کر بیٹھ گیا۔ امریکہ میں ایک کروڑ لوگوں کے کورونا سے متاثر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ کم از کم امریکہ کے 50 لاکھ خاندان کورونا سے متاثر ہوئے۔ اس صورتِ حال نے ڈونلڈ ٹرمپ کی عوامی مقبولیت کو متاثر کیا۔ ایک امریکہ گیر سروے کے مطابق امریکہ کے 18 فیصد لوگوں کے لیے کورونا ووٹ کے حوالے سے اہم تھا، جبکہ 34 فیصد امریکیوں نے رائے دہندگی کے سلسلے میں معیشت کو اہمیت دی۔ اس طرح امریکہ کے 52 فیصد رائے دہندگان کورونا اور معیشت کے زیراثر تھے۔ ایسا نہ ہوتا تو جو بائیڈن، ڈونلڈ ٹرمپ کو ہرا نہیں سکتے تھے۔ اِس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ جوبائیڈن نے 7 کروڑ 41 لاکھ، اور ٹرمپ نے 7 کروڑ ووٹ حاصل کیے ہیں۔ کورونا اور معیشت کے معاملات نہ ہوتے تو ڈونلڈ ٹرمپ 8 کروڑ تک ووٹ حاصل کر سکتے تھے۔ اس صورتِ حال میں ان کی کامیابی یقینی ہوتی۔

امریکہ کے صدارتی انتخابات نے ایک بار پھر جمہوریت کے عالمگیر بحران کو نمایاں کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جمہوریت ہر جگہ اکثریت کا استبداد ہی نظر آتی ہے۔ دنیا کی نظر اب نیک و بد، اہل اور نااہل پر نہیں ہوتی، اب صرف اکثریت اہم ہوتی ہے۔ اکثریت زہر کو قند کہہ دے تو زہر قند ہو جاتا ہے۔ اکثریت قند کو زہر باور کرا دے تو ساری دنیا اسے زہر کہنے لگتی ہے۔ جمہوریت کے عالمگیر بحران کی ایک علامت یہ ہے کہ جمہوریت مودی اور ٹرمپ جیسے کرداروں کو سامنے لا رہی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جمہوریت کے پاس چھلنی کیا، چھاج بھی نہیں ہے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ لوگ ٹرمپ اور مودی کو تو برا کہتے ہیں مگر ان نظاموں کو برا نہیں کہتے جنہوں نے انہیں اہم ترین مناصب پر فائز کیا ہے۔ یہ جمہوریت ہی کا کمال ہے کہ جن لوگوں کو سڑک پر سائیکل چلانے کا حق بھی نہیں دیا جا سکتا وہ ملک چلا رہے ہیں۔ جن لوگوں کے ہاتھ میں ایک آدمی کی تقدیر بھی نہیں دی جا سکتی وہ قوموں کی تقدیر کے فیصلے کر رہے ہیں۔

امریکہ کے صدارتی انتخابات نے ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ جمہوریت قوم کو متحد نہیں کرتی، تقسیم کرتی ہے۔ اِس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ آدھا امریکہ جو بائیڈن کے ساتھ، اور آدھا امریکہ ٹرمپ کے ساتھ ہے۔ فتحیاب ہونے والے جو بائیڈن نے اگر 7 کروڑ 41 لاکھ ووٹ حاصل کیے ہیں تو ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی 7 کروڑ ووٹ حاصل کیے ہیں۔  لوگ سمجھتے ہیں کہ قبائلیت ماضی کا قصہ ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ جمہوریت قبائلیت کی ایک جدید صورت کے سوا کچھ نہیں۔ دنیا کے اکثر ملکوں میں سیاسی جماعتوں کا کوئی نظریہ ہی نہیں، چنانچہ سیاسی جماعتیں سیاسی جماعتوں سے زیادہ قبائل محسوس ہوتی ہیں۔  امریکہ تک میں ڈیموکریٹک اور ری پبلکن پارٹی ایک قبیلہ ہیں۔ پاکستان میں عمران خان اور نوازشریف کی جنگ دو جماعتوں کی نہیں، دو قبائل کی جنگ ہے۔ یہاں تک کہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ بھی ایک قبیلہ ہے 20 ویں اور 21 ویں صدی کا قبیلہ۔

No comments.

Leave a Reply