یورپی یونین اور برطانیہ کے درمیان فری ٹریڈ معاہدے پر اتفاق

برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن یورپین کمیشن کی صدر عرسولا ون ڈیر لیئن

برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن یورپین کمیشن کی صدر عرسولا ون ڈیر لیئن

لندن ۔۔۔ نیوز ٹائم

یورپی یونین اور برطانیہ کے درمیان بریگزٹ کے بعد تجارتی معاہدے پر کئی مہینوں سے جاری اختلاف بالآخر ختم ہو گیا اور نئے معاہدے پر اتفاق کر لیا گیا۔ برطانوی نشریاتی ادارے (بی بی سی) کی رپورٹ کے مطابق ڈائوننگ اسٹریٹ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے کہا کہ ہم نے اپنے قوانین اور ہدف پر دوبارہ قابو پا لیا ہے۔ معاہدے کے جزیات ابھی جاری نہیں کیے گئے لیکن بورس جانسن نے دعوی کیا کہ یہ معاہدہ پورے یورپ کے لیے اچھا ہے۔ برطانیہ اگلے ہفتے یورپی یونین کے تجارتی قوانین سے باہر نکل جائے گا حالانکہ معاہدے کے تحت ایک سال قبل ہے تجارتی حوالے سے الگ ہونا تھا۔ بورس جانسن کے اعلان کے بعد برطانیہ اور یورپی یونین کی شکل میں دو الگ معیشتیں بننے کی راہ ہموار ہو گئی ہے اور برطانیہ کے شہریوں کے لیے آسانی کا سامان پیدا ہوا ہے جو کورونا وائرس کی وجہ سے پہلے ہی مشکلات کا شکار ہیں۔

پریس کانفرنس کے دوران برطانوی وزیر اعظم نے کہا کہ 668 ارب یورو سالانہ کے معاہدے سے ملک بھر میں روزگار کو تحفظ ملے گا اور برطانوی مصنوعات بغیر ٹیرف اور یورپی مارکیٹ میں بغیر کوٹا کے فروخت ہوں گی۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ ماہی گیری کے حوالے سے اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے کے لیے مجبور کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ میرے خیال میں یورپی یونین چاہتی تھی کہ منتقلی کا عمل 14 سال میں مکمل ہو اور ہم تین سال میں چاہتے تھے لیکن ہم 5 برس میں ختم کر چکے ہیں۔ بورس جانسن نے کہا کہ برطانیہ کو مالی حوالے سے خواہشات کے مطابق سب کچھ نہیں ملا جو برطانیہ کی معیشت کے لیے اہم ہے لیکن اس سے ہمارا تاریخی شہر لندن مستحکم ہو گا جو پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ انہوں نے کہا کہ برطانیہ ایراسمس اسٹوڈنٹس ایکسچینج پیکیج کا حصہ نہیں رہے گا کیونکہ یہ منصوبہ انتہائی مہنگا ہے لیکن برطانیہ متبادل کے طور پر ٹرننگ اسکیم کے نام سے سہولت فراہم کرے گا۔ دوسری جانب برسلز میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے یورپین کمیشن کی صدر عرسولا ون ڈیر لیئن (Ursula von der Leyen) کا کہنا تھا کہ یہ طویل راستہ تھا لیکن ہم ایک اچھا معاہدہ سامنے لے کر آئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اب صفحہ پلٹ کر مستقبل کی طرف دیکھنے کا وقت آ گیا تھا اور برطانیہ بدستور ایک آزمودہ شراکتدار ہے۔

”اسکاٹ لینڈ کی خواہشات کو دھچکا”

معاہدے کی توثیق کے لیے 30 دسمبر کو برطانوی پارلیمنٹ کا اجلاس ہو گا جہاں معاہدے پر ووٹنگ ہو گی۔ متوقع طور پر معاہدے کی حمایت کرنے والی اپوزیشن جماعت لیبر پارٹی کا کہنا تھا کہ فری ٹریڈ معاہدے کا مکمل متن جلد شائع کیا جائے گا۔ ویلز کے رہنما مارک ڈریکفورڈ (Mark Drakeford) کا کہنا تھا کہ معاہدے کا ہونا اس پر اتفاق نہ ہونے سے بہتر ہے لیکن انہوں نے معاہدے کے وقت پر تنقید کی۔ اسکاٹ لینڈ کے رہنما نیکولا اسٹرجیون (Nicola Sturgeon) کا کہنا تھا کہ بریگزیٹ، اسکاٹ لینڈ کی خواہشات کے برعکس ہو رہا ہے اور بریگزٹ کی وجہ سے جو کچھ ہم سے چھینا جائے گا اس کا مداوا کوئی معاہدہ نہیں کرے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ وقت ہمیں ایک آزاد یورپی قوم کے طور پر اپنا مستقبل بنانے کا ہے۔ آئرش وزیر اعظم مائیکل مارٹن کا کہنا تھا کہ وہ معاہدے کو مکمل طور پر پڑھیں گے اور جو کچھ ہم نے سنا ہے وہ میرے خیال میں ایک اچھا معاہدہ اور متوازن نتیجہ ہے۔ یورپی یونین سے علیحدگی کے لیے بڑھ چڑھ کر مہم چلانے والے بریگزٹ پارٹی کے سربراہ نیجل فیریگ (Nigel H Greig) کا کہنا تھا کہ معاہدہ مضبوط نہیں ہے لیکن یہ ایک بڑا لمحہ ہے اور اب واپسی کا کوئی موقع نہیں ہے۔

”بریگزٹ”، کب کیا ہوا؟

واضح رہے کہ 2016ء میں برطانیہ میں ہونے والے حیرت انگیز ریفرنڈم میں برطانوی عوام نے یورپی یونین سے اخراج کے حق میں ووٹ دیا تھا جس کے بعد طے کیا گیا تھا 29 مارچ 2019ء کو برطانیہ، یورپی یونین سے علیحدگی اختیار کر لے گا۔ جولائی 2016ء کو وزیر اعظم بننے والی تھریسامے (Theresa May) نے بریگزٹ معاہدے پر عوامی فیصلے کو عملی جامہ پہنانے کا وعدہ کیا تھا لیکن شدید مخالفت کے بعد سے انہیں مشکلات کا سامنا رہا اور انہوں نے اراکین پارلیمنٹ کو منانے کی کوشش کی کہ وہ اخراج کے معاہدے کو قبول کر لیں۔ اس معاہدے پر ووٹنگ گزشتہ سال دسمبر میں ہونا تھی لیکن بعد ازاں اسے جنوری تک کے لیے ملتوی کر دیا گیا تھا۔ مارچ 2017 ء میں برسلز میں شروع ہونے والے سخت مذاکرات کے نتیجے میں معاہدے کے مسودے پر اتفاق کیا گیا تھا جبکہ یورپی رہنمائوں نے دوبارہ مذاکرات کے امکان کو مسترد کر دیا تھا اور اس غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے برطانوی معیشت میں مستقل اضطراب پایا جاتا ہے۔ بریگزٹ کے حوالے سے کی گئی پہلی ووٹنگ میں تھریسامے (Theresa May)  کے خلاف 308 ووٹ سے ترمیم پاس کی گئی جس میں حکمراں جماعت کے درجنوں اراکین بھی شامل تھے جبکہ 297 اراکین نے وزیر اعظم کے حق میں ووٹ دیا تھا۔

برطانوی وزیر اعظم تھریسامے (Theresa May) کی اپنی جماعت کنزرویٹو پارٹی کے اراکین نے بھی لیبر پارٹی کا ساتھ دیا جس کے بعد 29 مارچ کو یورپی یونین سے مکمل علیحدگی کے حوالے سے خدشات پیدا ہو گئے تھے۔ تاہم تھریسامے کو سب سے بڑی ناکامی کا سامنا اس وقت کرنا پڑا جب 16 جنوری کو برطانوی پارلیمنٹ نے یورپی یونین سے علیحدگی کے وزیر اعظم تھریسامے کے بل کو واضح اکثریت سے مسترد کر دیا اور انہیں 202 کے مقابلے میں 432 ووٹ سے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا تھا۔ بعد ازاں رواں سال 29 مارچ کو برطانیہ کی پارلیمنٹ نے وزیر اعظم تھریسا مے کے بریگزٹ معاہدے کو تیسری مرتبہ کثرت رائے سے مسترد کر دیا۔ برطانوی دارالعوام میں بریگزٹ معاہدے کے حق میں 286 جبکہ مخالفت میں 344 ووٹ دیے گئے جس کے بعد آئندہ دو ہفتوں میں معاہدے کے بغیر بریگزٹ ہو گا یا اس میں طویل تاخیر ہونے کے امکانات پیدا ہو گئے تھے۔ رواں سال 11 اپریل کو یورپی ممالک کے رہنمائوں نے برطانیہ کے ساتھ بریگزٹ معاہدے پر 6 ماہ تک کی توسیع پر آمادگی کا اظہار کر دیا تھا۔ بریگزٹ میں توسیع کے معاملے میں یورپی ممالک کے 27 رہنمائوں نے برسلز میں مذاکرات کرنے کے بعد فیصلہ سنایا تھا۔

یاد رہے کہ برطانیہ نے 1973ء میں یورپین اکنامک کمیونٹی میں شمولیت اختیار کی تھی تاہم برطانیہ میں بعض حلقے مسلسل اس بات کی شکایات کرتے رہے ہیں کہ آزادانہ تجارت کے لیے قائم ہونے والی کمیونٹی کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے رکن ممالک کی ملکی خودمختاری کو نقصان پہنچتا ہے۔ بریگزٹ کے حامیوں کا کہنا ہے کہ یورپی یونین سے علیحدگی کے بعد ابتدا میں معاشی مشکلات ضرور پیدا ہوں گی تاہم مستقبل میں اس کا فائدہ حاصل ہو گا کیونکہ برطانیہ، یورپی یونین کی قید سے آزاد ہو چکا ہو گا اور یورپی یونین کے بجٹ میں دیا جانے والا حصہ ملک میں خرچ ہو سکے گا۔

No comments.

Leave a Reply