چین نے امریکا کے تبت سے متعلق قانون کو مسترد کر دیا

ترجمان وزارت خارجہ ژا لیجیان

ترجمان وزارت خارجہ ژا لیجیان

بیجنگ ۔۔۔ نیوز ٹائم

چین کی وزارت خارجہ نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے تبت پر دستخط شدہ قانون کو یکسر مسترد کر دیا اور ہانگ کانگ سے متعلق معاملات میں مداخلت سے باز رہنے پر زور دیا۔ خبر ایجنسی ‘رائٹرز’ کی رپورٹ کے مطابق چینی وزارت خارجہ کا کہنا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ روز تبت سے متعلق جس قانون پر دستخط کیے ہیں اس کو یکسر مسترد کرتے ہیں۔ ترجمان وزارت خارجہ ژا لیجیان (Zhao Lijian) نے میڈیا بریفنگ کے دوران کہا کہ تبت سے متعلق امور ہمارے داخلی معاملات ہیں۔

اس سے قبل امریکا کے صدر نے تبت سے متعلق پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے تبتن پالیسی اینڈ سپورٹ ایکٹ 2020 ء پر دستخط کیے تھے۔ اس قانون میں کہا گیا ہے کہ لہاسا میں امریکی قونصل خانہ قائم کیا جائے گا اور تبت کے شہریوں کو دلائی لاما کا جانشین منتخب کرنے کا مکمل حق دیا جائے گا۔ چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے بریفنگ کے دوران امریکا پر ہانگ کانگ کے معاملات میں مداخلت نہ کرنے پر زور دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکا، ہانگ کانگ کو استعمال کرتے ہوئے ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کریں۔ چین کی جانب سے یہ بیان چین میں قائم امریکی سفارت خانے کے اس مطالبے کے بعد سامنے آیا کہ شینژن میں ہانگ کانگ سے تعلق رکھنے والے قید 12 افراد کو رہا کیا جائے۔ امریکی سفارت خانے کے ترجمان نے بیان میں کہا تھا کہ ان افراد کا ‘نام نہاد جرم، ظلم سے بغاوت اور چین کا اپنے شہریوں کو کہیں بھی آزادانہ طور پر کام کرنے سے روکنے کا عزم ہے۔ چینی ترجمان نے کہا کہ امریکا کا بیان حقائق کے منافی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ چین اس بیان سے مکمل اختلاف کرتا ہے اور امریکا پر زور دیتا ہے کہ چین کے اندرونی معاملات میں مداخلت سے باز رہے۔

خیال رہے کہ 1991 ء میں برطانیہ نے ہانگ کانگ کو چین کے حوالے کیا تھا اور چین یہاں ایک ملک، دو نظام فریم ورک کے تحت حکمرانی کر رہا ہے اور ہانگ کانگ کو نیم خودمختاری حاصل ہے۔ گزشتہ سال اکتوبر میں ہانگ کانگ میں مجرمان کی حوالگی سے متعلق مجوزہ قانون کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاج و مظاہرے کیے گئے تھے، جس نے جمہوری سوچ رکھنے والے ہانگ کانگ کے عوام اور بیجنگ کی حکمراں جماعت کمیونسٹ پارٹی کے درمیان شدید اختلافات کو واضح کر دیا تھا۔ ہانگ کانگ میں اس احتجاج کا آغاز پرامن طور پر ہوا تھا تاہم حکومت کے سخت ردعمل کے بعد یہ احتجاج و مظاہرے پرتشدد ہو گئے تھے۔ شدید احتجاج کے بعد ہانگ کانگ کے شہریوں کو ٹرائل کے لیے چین بھیجنے کی اجازت دینے والے قانون کو واپس لے لیا گیا تھا تاہم اس کے باوجود احتجاج کئی ماہ تک جاری رہا تھا جس میں حقوق کے لیے ووٹنگ کرانے اور پولیس کی پرتشدد کارروائیوں کی آزادانہ تحقیقات کے مطالبے شامل تھے۔ چین نے رواں برس ہانگ کانگ کے حوالے نیشنل سیکیورٹی قانونی کی منظوری دی تھی جو نافذ ہو چکا ہے، جس کے بعد امریکا اور برطانیہ کی جانب سے سخت ردعمل آیا تھا لیکن چین نے اس کو مسترد کرتے ہوئے اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دیا تھا۔

No comments.

Leave a Reply