ایک چہرے پر کئی چہرے چڑھا لیتے ہیں لوگ

یوں محسوس ہوتا ہے کہ سیاستدانوں نے اپنے اصل چہروں پر مصنوعی چہروں کے خول چڑھا رکھے ہیں وہ اندر سے کچھ ہیں باہر سے کچھ

یوں محسوس ہوتا ہے کہ سیاستدانوں نے اپنے اصل چہروں پر مصنوعی چہروں کے خول چڑھا رکھے ہیں وہ اندر سے کچھ ہیں باہر سے کچھ

نیوز ٹائم

پاکستان کی سیاست پراسراریت کے پردوں میں لپٹی ہوئی ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ سیاستدانوں نے اپنے اصل چہروں پر مصنوعی چہروں کے خول چڑھا رکھے ہیں وہ اندر سے کچھ ہیں باہر سے کچھ۔ یہ سیاستدان حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں، سب ایک جیسے ہیں۔  یہ لوگ جب برسراقتدار ہوتے ہیں تو جمہوریت کو، آزادی اظہار کو اور عوام کے بنیادی حقوق کو اپنے جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں لیکن جب اقتدار سے بے دخل ہو جائیں تو یہی باتیں انہیں اچھی لگنے لگتی ہیں۔  وہ جمہوریت کے سب سے بڑے علمبردار بن جاتے ہیں، جمہوریت جو کبھی انہیں چڑیل نظر آتی تھی، اب ان کے لیے حسینہ عالم بن جاتی ہے اور اس پر زبانی کلامی جان نچھاور کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں، آزادی اظہار اور میڈیا کی آزادی ان کا بہترین مشغلہ بن جاتی ہے اور وہ اٹھتے بیٹھے اس کی تعریف میں کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔  رہے عوام کے بنیادی حقوق تو اگرچہ وہ یہ نہیں جانتے کہ یہ حقوق کیا ہوتے ہیں اور انہوں نے اپنے دور اقتدار میں ان کا کیا حال کر رکھا تھا لیکن اقتدار سے محروم ہوتے ہی انہیں یہ حقوق بھی یاد آ جاتے ہیں اور وہ عوام سے وعدہ کرتے ہیں کہ وہ انہیں ان کے حقوق دلا کر رہیں گے۔

لیکن درپردہ وہ جمہوریت، میڈیا کی آزادی اور عوام کے بنیادی حقوق کے لیے سودے بازی بھی کرتے رہتے ہیں اور ان کی کوشش ہوتی ہے کہ اقتدار پھر کسی طرح ان کے سر پہ بیٹھ جائے اور وہ اپوزیشن کی گھاٹیوں سے نکل کر اقتدار کی محل سرا میں پہنچ جائیں۔ ہمیں یہ باتیں اس لیے یاد آئیں کہ اقتدار سے بے دخل کیے گئے ایک نامور سیاستدان جو علاج کے بہانے لندن گئے تھے لیکن اب وہاں غیر معینہ عرصے کے لیے رہائش پزیر ہو کر ووٹ کو عزت دو کا بیانیہ بیچ رہے ہیں اور پاکستانی اسٹیبلشمنٹ پر گرج برس رہے ہیں،  ان کے بارے میں محمد علی درانی نے خبر دی ہے کہ انہوں نے اقتدار میں واپسی کے لیے پاکستانی مقتدرہ کے ساتھ ٹریک ٹو مذاکرات شروع کر دیے ہیں۔

درانی صاحب نے دعوی کیا ہے کہ نہ اپوزیشن استعفے دے گی نہ لانگ مارچ فروری میں ہو گا۔ محمد علی درانی کے بارے میں قارئین جانتے ہوں گے کہ یہ حضرت کبھی جماعت اسلامی سے تعلق رکھتے تھے پھر جنرل پرویز مشرف کو پیارے ہو گئے۔  مشرف کے دور میں انہوں نے وزارت کے مزے بھی لوٹے، اب پیر پگاڑا کی مسلم لیگ فنکشنل سے وابستہ ہیں اور اندر کی خبر رکھتے ہیں لیکن ان کی اندر کی خبر کوئی ایسی تعجب خیز نہیں ہے۔ یہ کام عرصے سے ہو رہا ہے اور ٹریک ٹو مذاکرات کی خبر گاہے بگاہے لیک ہوتی رہتی ہے جبکہ خود لندن سیاستدان اس سے انکاری ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ مذاکرات کا شوشا پی ڈی ایم کی تحریک کو سبوتاژ کرنے کے لیے چھوڑا گیا ہے۔

اِدھر پاکستان میں نواز شریف کی بیٹی بھی یہی کہہ رہی ہیں کہ اب نہ مذاکرات ہوں گے نہ کسی قسم کی مفاہمت ہو گی۔ بس اب لانگ مارچ ہو گا، جس میں حکومت کا دھڑن تختہ ہو گا۔ لانگ مارچ کب ہو گا؟ یہ واضح نہیں ہے۔ رانا ثنا اللہ نے تو صاف کہہ دیا ہے کہ لانگ مارچ فروری میں نہیں مارچ یا اپریل میں ہونا چاہیے۔ لوگ کہتے ہیں کہ اس وقت تک چڑیاں کھیت چگ چکی ہوں گی اور سینیٹ کے انتخابات کے بعد حکومت زیادہ مستحکم ہو جائے گی۔ اِس وقت پی ڈی ایم کے سربراہ حضرت مولانا فضل الرحمن جمہوریت کے سب سے بڑے چمپئن ہیں اور جمہوریت میں اختلافِ رائے کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے لیکن حضرت مولانا نے اختلافِ رائے رکھنے پر اپنی جماعت کے چار سینئر ارکان کو کسی نوٹس کے بغیر جماعت سے نکال باہر کیا ہے جس پر ایک ہنگامہ برپا ہے اور ٹی وی چینلز دھڑا دھڑ ان چاروں مظلومین کے انٹرویو ٹیلی کاسٹ کر رہے ہیں۔ جن میں وہ حضرت مولانا کو ڈکٹیٹر قرار دے رہے ہیں۔

ایک مظلوم حافظ حسین احمد کا کہنا ہے کہ مولانا فضل الرحمن نے ایک طرف اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان کے خلاف جنگ برپا کر رکھی ہے اور دوسری طرف وہ جرنیلوں کے ساتھ ملاقات میں بھی مضائقہ نہیں سمجھتے۔ وہ مولانا عبد الغفور حیدری اور اکرم درانی کے ہمراہ آرمی چیف جنرل باجوہ سے بھی ملاقات کر چکے ہیں اور اس کا اعتراف خود اِن تینوں حضرات نے کیا ہے۔ حافظ حسین احمد کہتے ہیں کہ جماعت اسلامی کے سوا کسی سیاسی جماعت میں جمہوریت نہیں ہے، تمام عہدوں پر باپ، بیٹا، بھائی، داماد اور دیگر عزیز و اقارب قابض ہیں اور وہ باقی لوگوں کو اپنے مزارعے سمجھتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمان کا ایک اور شکار مولانا شیرانی نے کہا ہے کہ مولانا فضل الرحمن نے پچھلے سال دھرنا بھی جماعت کی منظوری کے بغیر اپنی مرضی سے دیا تھا، پھر کسی خفیہ یقین دہانی پر واپس آ گئے تھے۔ اِس دھرنے کی منظوری اب مجلس شوری سے لی گئی ہے۔ حضرت مولانا کے ناقدین کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے اپنی جماعت میں آمریت کا مظاہرہ کر کے اپنے چہرے سے جمہوریت کا نقاب اتار پھینکا ہے لیکن یہ معاملہ مولانا کے ساتھ خاص نہیں، سارے لیڈروں کا یہی حال ہے۔

No comments.

Leave a Reply