مولانا فضل الرحمن زیادہ خطرناک کیوں؟

جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان

جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان

نیوز ٹائم

یہ 1988ء کا تذکرہ ہے۔ تب میاں نواز شریف، مقتدر حلقوں کے اسی طرح لاڈلے تھے، جس طرح ان دنوں عمران خان ہیں اور ان سے پیپلز پارٹی کے خلاف وہ کام لیا جا رہا تھا جو اس وقت مسلم لیگ (ن) وغیرہ کے خلاف خان صاحب سے لیا جا رہا ہے۔ انتخابات کے بعد صورت حال ایسی بن گئی کہ نواز شریف صرف اس صورت میں وزیر اعظم بن سکتے تھے کہ مولانا کے ووٹ بھی ان کو جاتے۔ مولانا فضل الرحمن نے مفتی محمود مرحوم کی رحلت کی بعد سیاست جنرل ضیاء الحق کی مخالفت اور جیل سے شروع کی تھی اور پیپلز پارٹی کی قیادت میں ایم آر ڈی کا حصہ رہ کر جنرل ضیاء الحق  کی آمریت کی مزاحمت کر رہے تھے۔  انتخابی نتائج آنے کے بعد جنرل اسلم بیگ نے انہیں مبارکباد کی آڑ لے کر ڈی آئی خان فون کیا اور طریقے سے یہ خواہش ظاہر کی کہ وہ نواز شریف کا ساتھ دیں۔ اگلے دن میاں نواز شریف ان کے پاس پہنچ گئے اور ساتھ دینے کی صورت میں ہر طرح کا لالچ دیا۔

مولانا کا اصرار تھا کہ چونکہ وہ (نواز شریف) ضیاء الحق کے کیمپ کے آدمی ہیں، اس لئے وہ یہ یوٹرن نہیں لے سکتے۔  چند روز بعد مولانا نے وزیر اعظم کے انتخاب کے لئے کسی کی حمایت یا مخالفت کرنے کے فیصلے کے لئے اپنی جماعت کی شوری کا اجلاس لاہور میں طلب کیا۔ اجلاس سے ایک روز قبل انہیں اچانک سعودی عرب سے رابطہ عالم اسلامی کے سیکرٹری جنرل کی کال آئی کہ کل لاہور میں ان کا نمائندہ ان سے ملنا چاہتا ہے۔  درمیان میں خالد خواجہ وغیرہ بھی آ گئے۔ چند لمحے بعد مولانا کو اس سعودی کا فون آیا، جس کا ذکر رابطہ عالم اسلامی کے جنرل سیکرٹری نے کیا تھا۔ ان کا نام شیخ صواف تھا، اسی شیخ صواف کے بارے میں بعض لوگوں نے یہ غلط مشہور کر رکھا تھا اور خود میرا بھی ابتدا میں یہ خیال تھا کہ وہ اسامہ بن لادن تھے۔ یہ میٹنگ لاہور کے فائیو اسٹار ہوٹل کے ایک کمرے میں ہوئی اور کچھ لوگ کہتے ہیں کہ دوسرے کمرے میں خود میاں نواز شریف بھی موجود تھے۔ شیخ صواف نے مولانا فضل الرحمن سے کہا کہ وہ میاں نواز شریف کو سپورٹ کریں۔ یہ دلائل بھی دئیے کہ عورت کی حکمرانی اسلام میں حرام ہے اور اگر انہوں نے یہ کام کیا تو وہ پورے عالم عرب کے علما سے مولانا کے حق میں بیانات دلوا دیں گے کہ انہوں نے عورت کی حکمرانی کا راستہ روکا۔  مولانا نے یہ کہہ کر ان سے معذرت کر لی کہ یہ فیصلہ ان کی شوری نے کرنا ہے۔ اس دوران شیخ صواف نے اشاروں کنایوں میں انہیں کروڑوں ریال کی بھی پیشکش کی جس کا مولانا نے برا منایا۔

دوسری طرف جنرل حمید گل نے بھی تمام حربے استعمال کئے لیکن مولانا فضل الرحمن نے میاں نواز شریف کو ووٹ نہ دے کر بے نظیر بھٹو کی حکمرانی کا راستہ ہموار کیا۔ اس کے بعد صدارتی الیکشن کا مرحلہ آیا تو جنرل اسلم بیگ نے انہیں گھر بلا کر غلام اسحاق کو سپورٹ کرنے کا کہا لیکن مولانا نے نوابزادہ نصراللہ کو کھڑا کیا۔ یہ تھے ابتدائی دنوں کے مولانا فضل الرحمن جو اپنے اسلاف کی طرح اسٹیبلشمنٹ کی مخالف سمت میں چل رہے تھے تاہم جب افغانستان میں دیوبندی طالبان اسٹیبلشمنٹ کے فیورٹ بنے تو مولانا فضل الرحمن کی نہ صرف دوستی ہو گئی بلکہ انہوں نے ان کے ساتھ جوڑ توڑ اور مصلحتوں کی سیاست شروع کی اور 2018ء تک کرتے رہے لیکن الیکشن کے بعد مولانا دو وجوہات کی وجہ سے برہم ہوئے۔  ایک تو وہ سمجھتے ہیں اور ٹھیک سمجھتے ہیں کہ ان کے ساتھ دھوکہ دہی اور دھاندلی سے کام لیا گیا۔ دوسرا وہ عمران خان کے بارے میں سازشی تھیوریز پر یقین رکھتے ہیں۔ 2018کے انتخابات کے بعد جب پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) اپنی اپنی ڈیل کی کوششوں میں مصروف تھیں، مولانا فضل الرحمن، عمران خان اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف تسلسل کے ساتھ اپوزیشن کرتے رہے۔گزشتہ سال وہ اسلام آباد دھرنا دینے آئے اور اب ان کی ناراضگی میں یہ بات بھی شامل ہو گئی ہے کہ جن وعدوں کی بنیاد پر ان کو اٹھایا گیا، وہ پورے نہیں ہوئے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی ڈیلیں ناکام ہوئیں تو پیپلز پارٹی آگے بڑھی اور اے پی سی بلا کر اور پی ڈی ایم تشکیل دے کر مولانا فضل الرحمن کو اس کاصدر بنا دیا۔ ابتدا میں دونوں جماعتوں نے بڑا جارحانہ رویہ اپنایا۔

میاں صاحب نے نام لینے شروع کئے اور پیپلز پارٹی نے پختون تحفظ موومنٹ کے محسن داوڑ تک کو پی ڈی ایم میں شامل کرایا لیکن جب پیپلز پارٹی کے ساتھ رابطے ہوئے تو وہ پھر مصلحت کی سیاست پر اتر آئی۔ اب مسلم لیگ (ن) پر محنت ہو رہی ہے اور بڑی حد تک وہ بھی ڈانواں ڈول ہو گئی ہے لیکن مولانا کا لہجہ دن بدن تلخ ہوتا جا رہا ہے۔ کوشش یہ ہو رہی ہے کہ مولانا کو تنہا کر کے ان کے ساتھ حساب برابر کیا جائے لیکن ایک تو مولانا اس مرتبہ مکمل تنہا کبھی نہیں ہوں گے اور دوسرا مولانا کو جو نقصان ہو گا سو ہو گا لیکن اگر ان کو دیوار سے لگانے کی کوشش کی گئی تو یہ عمل جتنا عمران خان کے لئے فائدے مند ہو گا، اتنا ریاست کے لئے نقصان دہ بھی ہو گا۔ اس وقت قبائلی اضلاع اور بلوچستان میں یا تو پی ٹی ایم کا بیانیہ چل رہا ہے یا پھر بلوچ قوم پرستوں کا۔  ابھی تک دونوں فالٹ لائنز میں میں ان قوتوں کو جے یو آئی کارنر کر رہی تھی کیونکہ وہ اسلام اور پاکستان کی بات کر رہی تھی۔ اب اگر مولانا بھی منظور پشتین، محمود خان اچکزئی اور اختر مینگل جیسی زبان استعمال کرنے لگے تو ان علاقوں میں ریاست کا دفاع کرنے والی سیاسی قوت کوئی نہیں رہ جائے گی۔ تبھی میں عرض کرتا ہوں کہ عمران خان کو تو فائدہ ہو گا لیکن ریاست کو نقصان ہو گا۔

ابھی تو مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی جیسی قومی اور مجبور جماعتوں کی وجہ سے مولانا اور قوم پرست لیڈروں کا بیانیہ کافی نرم ہو جاتا ہے لیکن اگر پی ڈی ایم سے قومی جماعتوں کی یہ چھتری ہٹ گئی تو ریاستی اداروں سے متعلق ان لوگوں کا لہجہ اور عمل مزید تلخ ہونا بعید از قیاس نہیں۔ یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ مولانا فضل الرحمن نسلاً افغان ہیں، ان کا ناصر قبیلہ ماضی میں افغانستان سے ڈی آئی خان منتقل ہوا تھا۔  گزشتہ 20 برسوں میں ہم نے مولانا کو حامد کرزئی طرز کی سیاست کرتے دیکھا ہے لیکن اگر ان کو دیوار سے لگایا گیا تو خاکم بدہن، وہ ملا عمر بن سکتے ہیں۔ اس لئے میری گزارش ہے کہ مولانا کو حامد کرزئی رہنے دیا جائے، ملا عمر بننے پر مجبور نہ کیا جائے۔ باقی مرضی ہے پاکستان میں اپنی مرضی چلانے والوں کی۔

No comments.

Leave a Reply