ایکواڈور: جیل فسادات میں کم از کم 75 قیدی ہلاک

ایکواڈور کی بھری ہوئی تین جیلوں میں ہونے والے فسادات میں 75 قیدی ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے

ایکواڈور کی بھری ہوئی تین جیلوں میں ہونے والے فسادات میں 75 قیدی ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے

کیوٹو ۔۔۔ نیوز ٹائم

ایکواڈور کی بھری ہوئی تین جیلوں میں ہونے والے فسادات میں 75 قیدی ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے، اس فساد کا ذمہ دار مختلف گروہوں کے درمیان جاری دشمنی کو قرار دیا جا رہا ہے۔ غیر ملکی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق سیکیورٹی فورسز جیلوں کا دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے کے لیے لڑائی لڑتے رہے جبکہ پریشانی میں مبتلا قیدیوں کے اہلخانہ ایکواڈور کے مغربی بندرگاہ شہر گویا کویل (Guayaquil)  میں جیل کے باہر خبروں کا شدت سے انتظار کر رہے تھے جہاں حکام کے مطابق 21 افراد ہلاک ہوئے۔ اس کے علاوہ جیل انتظامیہ کے ڈائریکٹر ایڈمنڈو مونکائیو (Edmundo Moncayo)  کے مطابق جنوب میں کوئنکا (Cuenca)  کی جیل میں 33 افراد اور جنوبی امریکا کے ملک کے وسط میں واقع لاتاکنگا (Latacunga)  میں 8 افراد ہلاک ہوئے۔ گیانا (Guayaquil)   جیل سے باہر کی 40 خواتین میں سے ایک 29 سالہ دانیلا سوریا Daniela Soria) نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ ہلاک ہونے والے افراد کی فہرست دی جائے۔ انہوں نے اے ایف پی کو بتایا کہ ہم جانتے ہیں کہ مسائل ختم نہیں ہوئے ہیں کیونکہ وہاں ہر ایک کے پاس فون ہے اور میرا شوہر مجھے فون نہیں کرتا ہے۔ اس سے قبل انہیں اپنے شوہر ریکارڈو کی جانب سے واٹس ایپ کا ایک آڈیو پیغام موصول ہوا تھا جسے انہوں نے اے ایف پی کو بھی سنایا جس میں ان کے شوہر کہہ رہے تھے کہ یہ مجھے مارنے جا رہے ہیں، مجھے یہاں سے نکالو’۔

ایکواڈور کے صدر لینن مورینو (Lenin Moreno) نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر بیان جاری کرتے ہوئے فسادات کا ذمہ دار مجرم گروہوں کا متعدد جیلوں میں بیک وقت تشدد کی کارروائیوں میں مصروف ہونا قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ حکام کنٹرول سنبھالنے کے لیے کوشاں ہیں۔ فوج کو بغاوت کو روکنے میں پولیس کی مدد کے لیے تعینات کر دیا گیا ہے۔ عوامی تحفظ کے دفتر، جو انسانی حقوق کے دفاع کے لیے قائم ایک محتسب کی طرح کا ایک ادارہ ہے، نے اس تشدد کو ایک بے مثال قتل عام قرار دیا اور اس نے ملک میں سلامتی کی عدم فراہمی پر تشویش کا اظہار کیا جو جیل کی ان سہولیات کے اندر جرم اور تشدد میں اضافے کی عکاسی کرتا ہے۔

No comments.

Leave a Reply