امریکا، دوحہ معاہدے پر عمل نہیں کر رہے، طالبان کا الزام

خیال رہے کہ 29 فروری 2020 ء کو امریکا اور طالبان کے درمیان امن معاہدے میں بین الافغان مذاکرات طے پائے تھے

خیال رہے کہ 29 فروری 2020 ء کو امریکا اور طالبان کے درمیان امن معاہدے میں بین الافغان مذاکرات طے پائے تھے

دوحہ ۔۔۔ نیوز ٹائم

طالبان نے افغان حکومت اور اس کے مغربی اتحادیوں پر الزام لگایا ہے کہ وہ گزشتہ برس طے پانے والے معاہدے پر عمل نہیں کر رہے جن میں قیدیوں کی رہائی اور غیر ملکی افواج کی بے دخلی شامل ہے۔ دوحہ میں طالبان کے سیاسی دفتر کے ایک سینئر رکن نے الجزیرہ کو بتایا کہ قطری دارالحکومت میں بین الافغان بات چیت کے آغاز کے 3 ماہ میں تمام طالبان قیدیوں کو رہا کیا جانا تھا۔ نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انہوں نے بتایا کہ 5 ماہ سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے اور انہوں نے ایک بھی قیدی رہا نہیں کیا۔ انہوں نے طالبان قیدیوں کی رہائی میں تاخیر کا الزام افغان صدر اشرف غنی پر عائد کیا۔ طالبان کی جانب سے یہ بیان ایسے وقت پر سامنے آیا ہے جب طالبان نے ہفتوں کی تاخیر اور امریکی قیادت میں تبدیلی کے بعد دوحہ میں افغان حکومت کے ساتھ دوبارہ بات چیت کا آغاز کر دیا ہے۔ طالبان عہدیدار نے بقیہ امریکی افواج کے انخلا میں تاخیر پر بھی تشویش کا اظہار کیا۔

دوسری جانب امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ فروری 2020 ء میں ہونے والے دوحہ معاہدے پر نظرثانی کر رہی ہے۔ جو بائیڈن نے تنازع کے سیاسی حل کی حمایت کی ہے لیکن وہ افغانستان سے امریکی فوجیوں کی واپسی کی حتمی تاریخ پر اتفاق نہیں کر سکے۔ دوحہ میں طالبان عہدیدار نے کہا کہ امریکی حکومت کے ساتھ معاہدہ ہے اور ہم ان سے معاہدے کی پاسداری کی توقع کرتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ طالبان تحریری معاہدے کے پابند ہیں اور ہم توقع کرتے ہیں کہ دوسرا فریق (امریکا)  بھی ایسا ہی کرے گا۔

خیال رہے کہ 29 فروری 2020 ء کو امریکا اور طالبان کے درمیان امن معاہدے میں بین الافغان مذاکرات طے پائے تھے، اس وقت اس معاہدے کو 19 سال سے جاری جنگ میں امن کا بہتری موقع قرار دیا گیا تھا۔ ابتدائی طور پر یہ توقع کی جا رہی تھی کہ معاہدے کے چند ہفتوں بعد ہی بین الافغان مذاکرات کا آغاز ہو جائے گا، تاہم شروع سے ہی اس ٹائم لائن میں تاخیر کے باعث خلل پڑنا شروع ہو گیا تھا۔ امریکا کے ساتھ ہوئے طالبان کے معاہدے سے قبل ہی یہ طے کیا گیا تھا کہ افغان حکومت 5 ہزار طالبان قیدیوں کو رہا کرے گی جبکہ طالبان بدلے میں 1000 حکومتی اور عسکری اہلکاروں کو اپنی حراست سے چھوڑیں گے، تاہم اس میں مسائل کا سامنا رہا اور افغان حکومت اس سے گریز کرتی نظر آئی۔ مزید یہ کہ کابل میں جاری سیاسی بحران نے مذاکرات کو مزید تاخیر کا شکار بنا دیا کیونکہ وہاں افغان صدر اشرف غنی اور ان کے حریف عبداللہ عبداللہ نے متنازع صدارتی انتخابات میں ایک دوسرے پر فتح کا اعلان کر دیا۔ بعد ازاں دونوں فریقین کی جانب سے ایک دوسرے کے قیدیوں کی رہائی بھی دیکھنے میں آئی تھی اور طالبان کے 6 قیدیوں کی آخری رکاوٹ دور ہونے کے بعد قطر کی وزارت خارجہ نے مذاکرات کے آغاز کا اعلان کیا تھا۔ اس حوالے سے بیان میں کہا گیا تھا کہ افغانستان کے فریقین کے درمیان یہ براہ راست مذاکرات انتہائی اہم ہیں اور افغانستان میں دیرپا امن کی جانب اہم قدم ہے۔

No comments.

Leave a Reply