سیاسی تلخیاں کم کریں

ذوالفقار علی بھٹو اپنی زندگی اور موت کے بعد بھی پاکستان کے مقبول ترین سیاسی رہنما رہے

ذوالفقار علی بھٹو اپنی زندگی اور موت کے بعد بھی پاکستان کے مقبول ترین سیاسی رہنما رہے

نیوز ٹائم

سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد باقی ماندہ ملک میں سیاسی کشیدگی اپنے عروج پر تھی جب ذوالفقار علی بھٹو نے 31 دسمبر 1971ء  کو ملک کے پہلے صدر اور سویلین مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کے طور پر حلف اٹھایا کیونکہ ملک بے آئین تھا۔  مغربی پاکستان کی حزبِ اختلاف کی قیادت نالاں تھی اور تلخیاں اپنے عروج پر تھیں۔ ایسے ماحول میں بھٹو نے گفتگو کا آغاز اپنے سب سے بڑے سیاسی مخالف سے کیا اور چند ماہ میں ہی ملک کو ایک عبوری آئین دے دیا۔  صرف اس ایک اقدام سے ماحول بہتر ہوا اور ایک سال کے قلیل عرصے میں وہ ہوا جو قیام پاکستان کے بعد سے نہیں ہوا تھا یعنی ایک متفقہ آئین۔  سیاسی لڑائیاں اپنی جگہ پھر بھی چلتی رہیں مگر آج 73 سال بعد بہت بگاڑ کے باوجود آنے والے بڑے آمروں میں بھی یہ جرات نہیں ہوئی کہ وہ کوئی نیا آئین لے آتے۔ ذوالفقار علی بھٹو اپنی زندگی اور موت کے بعد بھی پاکستان کے مقبول ترین سیاسی رہنما رہے ان کے حامی بھی بہت تھے اور مخالف بھی مگر جس چیز نے انہیں دوسروں سے ممتاز کیا وہ تھی ان کی جرات اور پھانسی گھاٹ پر بھی NRO سے انکار۔ مگر ان کا طرزِ حکمرانی بہت متنازع رہا۔ اس کے باوجود تمام اہم مواقع پر انہوں نے حزبِ اختلاف کو اعتماد میں لیا چاہے وہ دورہ بھارت ہو یا اسلامی سربراہ کانفرنس۔  ایٹمی پروگرام کا آغاز اور اپنے ہی خلاف چلنے والی تحریک کے دوران1977ء میں حزبِ اختلاف کے اتحاد پاکستان قومی اتحاد سے کامیاب مذاکرات۔  بدقسمتی سے اس وقت کے آرمی چیف جنرل ضیاء الحق نے اس کے باوجود 5 جولائی کو مارشل لا لگا دیا۔

بھٹو کی پھانسی کے بعد بیگم نصرت بھٹو اور بے نظیر کیلئے آسان نہ تھا کہ ان لوگوں کے ساتھ سیاسی اتحاد کرتیں جو بھٹو کو دی جانے والی سزا کے حامی تھے۔  اسی لئے پہلی میٹنگ 70 کلفٹن میں نہیں، کراچی پریس کلب میں ہوئی۔  تلخ یادوں کو بھلا کر آگے بڑھنے کی بات ہوئی اور 1981ء میں تحریک بحالی جمہوریت، ایم آر ڈی وجود میں آئی۔ 1985میں غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات ہوئے۔  ایم آر ڈی نے شرکت نہ کر کے غلطی کی اور ایک گمنام سیاستدان محمد خان جونیجو وزیر اعظم بنے جنہوں نے اپنے مختصر دور اقتدار میں وہ کام کیا جس سے مخالفین اور جنرل ضیاء بھی حیران رہ گئے۔ انہوں نے شہری آزادیاں بحال کیں، پریس کو آزاد کیا، جس سے جنرل ضیاء  خوش نہیں تھے مگر سیاسی کشیدگی بہت کم ہوئی۔ بے نظیر بھٹو نے واپسی کا اعلان کیا۔ جونیجو کمزور سہی لیکن جرات مند فیصلے کرنے والے حکمران ثابت ہوئے جس کی قیمت انہیں چکانا پڑی۔  جب انہیں بدنامِ زمانہ 58-2B کا سہارا لے کر اقتدار سے ہٹایا گیا تو کسی نے ان سے سوال کیا کہ آپ اب کیا کریں گے؟ جواب دیا، گھر میں آرام۔

 شائد اسی میں ملک کی بہتری ہو۔ 1988ء سے 2002 ء تک بے نظیر بھٹو اور نواز شریف ایک دوسرے کے بدترین مخالف رہے جس کا فائدہ ایک طرف غیر سیاسی قوتوں نے اٹھایا تو دوسری طرف گورننس کے معاملات سنگین ہو گئے۔ نتیجے میں حکومتیں 18 سے 23 ماہ میں فارغ کر دی جاتیں۔ آخر وہی ہوا جس کا خدشہ رہتا تھا۔ 12 اکتوبر 1999ء کو نواز شریف کی حکومت کا خاتمہ اور پھر ایک طویل فوجی حکمرانی کا دور۔ آخر دونوں سیاستدانوں کو چوٹ لگنے کے بعد ہوش آیا اور غلطیاں تسلیم کر کے میثاقِ جمہوریت کیا۔  بعد میں بھی بے نظیر سے NRO کی بڑی غلطی ہوئی مگر پھر بھی دونوں ملک واپس آئے مگر یہ اتحاد کچھ لوگوں کو پسند نہ آیا اور 27 دسمبر 2007ء کو بے نظیر الیکشن سے کچھ عرصہ قبل شہید ہو گئیں۔ عمران خان اس سارے عرصہ میں توجہ کا مرکز بنتے چلے گئے۔  ان کو سب سے زیادہ سیاسی فائدہ پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان فرینڈلی اپوزیشن سے ہوا اور جلد ہی وہ واحد حزب اختلاف کے رہنما کے طور پر ابھرے۔  انہوں نے اپنے کرپشن مخالف بیانیے سے پاکستان کی مڈل کلاس کو اپنی جانب متوجہ کیا۔  2011 سے 2013 ء تک عمران کراچی تا خیبر ایک مستند سیاسی رہنما کے طور پر ابھر چکے تھے۔

KPمیں پہلی بار ان کی حکومت بنی جو آج تک قائم ہے۔ مگر ان کی نظریں مرکز پر تھیں۔ جن غیر سیاسی لوگوں کو عمران ایک بہتر آپشن کے طور پر نظر آئے اور انہوں نے ان کی خاموش حمایت کا فیصلہ کیا، وہ اپنی تمام کوششوں کے باوجود نواز شریف کا پنجاب میں اثر و رسوخ اور ووٹ بینک کم نہ کر سکے لہذا کھیل کراچی میں کھیلا گیا۔ جس کی شائد گواہی خود مصطفی کمال اور خالد مقبول دے سکتے ہیں کہ انہیں کون کون کیا کیا پیغام دیتا رہا۔ عمران پچھلے ڈھائی سال سے حکمران ہیں اور سول، ملٹری تعلقات بہتر ہیں۔ شاید وہ سیاسی تلخیاں برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔

 وہ کچھ نہ کریں مگر اچھی طرز حکمرانی کی مثالیں تو قائم کریں۔ حال ہی میں ہونے والے ضمنی انتخابات ان کیلئے ایک سبق ہیں۔  حال ہی میں سندھ، پنجاب اور نوشہرہ کے نتائج ردعمل ہیں بڑھتی ہوئی مہنگائی کا۔ اس کے بعد خان صاحب بلدیاتی الیکشن کی طرف جائیں گے یا نہیں یہ تو پتہ نہیں مگر فواد چوہدری کے بقول ملک میں کپتان طاقتور ہو اور پنجاب اور KP میں کمزور تو مسلم لیگ جیسی جماعت کو PTI کے خلاف جانے کی ضرورت کیا ہے۔ ہم خود ہی کافی ہیں۔ رہ گئی بات مستقل حکمرانوں کی تو موجودہ سیاسی کشیدگی کسی بھی طرح ملک کے لئے بہتر نہیں۔  آپ کا غیر جانبدار رہناہی بہتر ہے کیونکہ ہمارے چیلنجز بڑے ہیں۔  سیاست اور حکومتوں میں تبدیلی اِدھر ادھر سے لانے کے بجائے جمہوری طریقہ سے آنے دیں۔  یہی درخواست عدلیہ سے بھی ہے کہ پچھلے 73 سالوں میں لوگوں کا اعتماد نظریہ ضرورت کی وجہ سے کم ہوا ہے۔  اچھی بری سیاست جس کا کام ہے اس کو ہی کرنا چاہئے۔ لوگ باشعور ہیں۔ عمران ایک سیاسی عمل کا حصہ ہے۔  مقبول لیڈر پھانسیوں اور سازشوں سے نہیں جاتے، ایک طے شدہ طریقہ کار سے جاتے ہیں جسے جاری رہنا چاہئے۔  پانچ سال عمران کا حق ہے مگر ماحول تو بنائیں اس کا حضور۔

No comments.

Leave a Reply