امریکی معیشت کی نمو چار دہائیوں کی بلند ترین سطح پر پہنچنے کا امکان

اعلی عہدیداروں نے اس بات کا بھی عندیہ دیا ہے کہ ملک میں بے روزگاری کی اصلی شرح 10 فیصد تک ہو سکتی ہے

اعلی عہدیداروں نے اس بات کا بھی عندیہ دیا ہے کہ ملک میں بے روزگاری کی اصلی شرح 10 فیصد تک ہو سکتی ہے

واشنگٹن  ۔۔۔ نیوز ٹائم

کورونا بحران نے امریکی معیشت کو گزشتہ نصف صدی کے کٹھن ترین مسائل سے دوچار کر رکھا ہے، ملک میں 5 لاکھ لوگ زندگی کی بازی ہار چکے ہیں، اور اس موذی مرض کے نئے کیسز کچھ کمی کے باوجود پریشان کن تعداد میں سامنے آ رہے ہیں اور حالیہ دنوں میں اعلی عہدیداروں نے اس بات کا بھی عندیہ دیا ہے کہ ملک میں بے روزگاری کی اصلی شرح 10 فیصد تک ہو سکتی ہے۔ کورونا وائرس کے پھیلائو سے متعلقہ کچھ ایسے مثبت عوامل بیک وقت نمودار ہو رہے ہیں جن کی بدولت امریکی معیشت کی نمو گزشتہ چار عشروں کی بلند ترین سطح پر پہنچنے کے امکانات بڑھ گئے ہیں ان عوامل میں ویکسین کی دستیابی، امریکی صارفین کے اخراجات کا بڑھتا ہوا رجحان، صدر جو بائیڈن کی طرف سے 19 کھرب ڈالر کے کورونا ریلیف اور اسٹیمولس پیکچ (Stimulus Package) ، امریکیوں کی بچتوں اور کارخانوں میں پیداوار میں اضافہ شامل ہیں۔

امریکی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق ان سارے عوامل کے پیش نظر اقتصادیات کے تین بڑے اداروں بارکلیز (Barclays) ، مورگن سٹینلے (Morgan Stanley)  اور آکسفورڈ نے پیشنگوئی کی ہے کہ اس سال امریکی معیشت 6.5 کی شرح سے آگے بڑھے گی جبکہ گولڈمین سیکس (Goldman Sachs)  نے کہا ہے کہ امریکی معیشت کی شرح نمو 7 فیصد کی بلند سطح کو چھو لے گی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ویکسین کی بڑے پیمانے پر دستیابی سے غیر یقینی کی صورت حال کم ہو گی کئی مہینوں سے جاری کورونا سے بچائو کے سلسلے میں عائد پابندیاں نرم ہونا شروع ہوں گی اور لوگ معمول کی اقتصادی سرگرمیوں اور کاروبار حیات کی جانب لوٹیں گے۔  کچھ ماہرین کی نظر میں معیشت کی زور و شور سے واپسی ایک زبردست رجحان کو جنم دے گی اس تناظر میں امریکا کے کثیر الاشاعت جریدے یو ایس ٹو ڈے کے مطابق مورگن سٹینلے (Morgan Stanley) کے چیف اکانومسٹ چیتن اہیا (Chetan Ahya)  نے کہا ہے کہ معیشت کا اس زبردست انداز میں آگے بڑھنا ایک بہت بڑی بات ہے کیونکہ امریکی معیشت 2007ء اور 2009ء کی کسادبازاری کے بعد کبھی بھی اپنی کھوئی ہوئی شرح نمو بحال نہیں کر پائی تھی۔

ماہرین اقتصادیات توقع رکھتے ہیں کہ امریکی معیشت کی بلند ترین سطح پر افزائش 2022ء کے اختتام تک جاری رہے گی لیکن کچھ ماہرین معیشت میں گزشتہ 20 سال کے مقابلے میں اس اچانک اضافے کے افراط زر جیسے منفی اثرات سے بھی خبردار کرتے ہیں  واشنگٹن پوسٹ کے مطابق سابقہ وزیر خزانہ لیری سمرز (Larry Summers)  کہتے ہیں کہ اس طرح اقتصادی ترقی سے معیشت اپنے امکانات سے بڑھ کر اوورہیٹنگ کا شکار ہو سکتی ہے جس کے باعث حالات ایک نئی کسادبازاری کی طرف رخ کر سکتے ہیں۔ اسی طرح ایک حالیہ تحقیق کے مطابق کئی کمپنیوں کے ملازمین گھر سے یعنی آن لائن اپنا دفتری کام انجام دیں گے، جس سے چھوٹے درجے کے کاروباروں کی بحالی میں مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔ گریٹر واشنگٹن پارٹنرشپ (Greater Washington Partnership)  اور ارنسٹ اینڈ ینگ (Ernst & Young)  کی تحقیقی رپورٹ کے مطابق اس سال کے پہلے چار ماہ میں تقریبا 75 فیصد کارکن آن لائن کام کریں گے۔  ماہرین کا کہنا ہے کہ ویکسین کی زیادہ سے زیادہ لوگوں کے لیے فراہمی اور امریکی انتظامیہ کی طرف سے چھوٹے درجے کے کاروباروں کی بحالی کے لیے مراعات فیصلہ کن ثابت ہوں گی۔

واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہونے والے ایک مضمون کے مطابق کورونا بحران نے نئی مالی سوچ کو جنم دیا ہے وفاقی ذخائر کے محکمے فیڈرل ریزروز نے کہا ہے کہ اگر افراط زر کی شرح دو فیصد تک بڑھ بھی جاتی ہے تو وہ قرضوں پر سود کی شرح کو صفر کے قریب یعنی کم سے کم سطح پر رکھے گا تاکہ کاروبار اور صارفین دونوں کے لیے قرضے لینے میں آسانی رہے۔ تاہم زیادہ تر ماہرین کا کہنا ہے کہ معیشت کی بحالی میں بائیڈن انتظامیہ کی طرف سے 19 کھرب ڈالر کے ریلیف پیکج کا کردار اہم ترین رہے گا، کیونکہ صارفین کی جیبوں میں خرچ کرنے کے لیے نئی رقوم آئیں گی پہلے ہی گزشتہ ایک سال میں وفاق کی طرف سے دیے گئے 38 کھرب ڈالر نے معیشت کو بہت سہارا دیا ہے۔ اقتصادی ماہرین کے مطابق امریکہ میں ورک فورس یعنی کارکنان کی تعداد میں اضافے سے معیشت کی بحالی کے بعد، اس کی افزائش کو صحت مندانہ سطح پر برقرار رکھا جا سکتا ہے اس سلسلے میں بے روزگار ہونے والی خواتین کی کام پر واپسی اور نئے تارکین وطن کا امریکہ میں آنا اور ملک کے انفراسٹرکچر یعنی سہولیات کے بنیادی ڈھانچوں کو جدید بنانا بہت اہم ثابت ہوں گے۔ کانگرس کے بجٹ دفتر کے تخمینے کے مطابق اگر امریکی معیشت 1.8 کے مقابلے میں 2.5 کی شرح نمو سے بڑھتی ہے تو ایک عشرے میں 111 ٹریلین ڈالر کی اقتصادی کاروائیاں عمل میں آئیں گی۔

No comments.

Leave a Reply