میانمر: فوج نے اپنا حامیوں میدان میں اتار دیا، مظاہرین پر حملے

حکومت کا تختہ الٹنے پر فوج کے خلاف احتجاج کیا جا رہا ہے دوسری جانب آمریت کے حامی جمہوریت کی بحالی کا مطالبہ کرنے والے مظاہرین پر وحشیانہ تشدد کررہے ہیں

حکومت کا تختہ الٹنے پر فوج کے خلاف احتجاج کیا جا رہا ہے دوسری جانب آمریت کے حامی جمہوریت کی بحالی کا مطالبہ کرنے والے مظاہرین پر وحشیانہ تشدد کررہے ہیں

نیپیداو ۔۔۔ نیوز ٹائم

میانمر کی باغی فوجی نے مظاہرین کو کچلنے کے لیے اپنے حامیوں کو میدان میں اتار دیا۔ خبر رساں اداروں کے مطابق بغاوت کر کے حکومت کا تختہ الٹنے والی فوج کے کٹھ پتلی شہریوں نے مظاہرین پر حملے کر کے انہیں بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا۔ اس دوران مختلف مقامات پر فوج کے حامیوں اور مخالفین میں جھڑپیں ہوئیں، جن میں فوجی غنڈے لوہے کے ڈنڈے اور چاقو لے کر احتجاج کرنے والے شہریوں پر تشدد کا نشانہ بنایا۔ ینگون میں آمریت کے حامیوں کی جانب سے دھاوئوں کے دوران پولیس اہلکار خاموش تماشائی بنے رہے اور مسلح بلوائیوں کو روکنے کی کوشش بھی نہیں کی۔ اس دوران مسلح افراد نے ہاتھوں میں بینر بھی اٹھا رکھے، جن پر فوج سے اظہار یکجہتی اور عوامی حکومت کے خلاف نعرے درج تھے۔ جمعرات کے روز پولیس نے ینگون میں گلیوں اور سڑکوں پر موجود مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے کارروائی بھی کی تھی۔ عالمی میڈیا کے مطابق دارالحکومت سمیت کئی شہروں میں مظاہرین نے پرامن احتجاج کیا، جسے پولیس اور فوج نے پرتشدد بنانے کی کوشش کی۔

دوسری جانب سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک نے نے میانمر کی فوج کے اکائونٹس پر پابندی لگا دی۔ فیس بک کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ملک میں فوجی بغاوت اور پرتشدد واقعات بڑھنے پر ملٹری اکائونٹ بند کیے گئے ہیں۔ ان حالات میں فوجی قیادت کو فیس بک اور انسٹاگرام کے استعمال کی اجازت دینا بہت خطرناک ہے۔ فوجی قیادت کے ساتھ ساتھ فوج کے ذیلی اداروں اور ساتھ دینے والی کمپنیوں پر پابندی عائد کی گئی ہے۔ قبل ازیں فیس بک نے میانمر کی فوج کے کئی پیجز پر پابندی عائد کر دی تھی۔ 2018 ء میں فیس بک نے فوج کے سینئر ترین جنرل من آنگ ہلینگ (Min Aung Hlaing)  اور دیگر اعلی افسران کے اکائونٹ منجمد کر دیے تھے۔ رواں برس یکم فروری کو آنگ سان سوچی کی حکومت کو اقتدار سے علحیدگی کرنے میں بھی جنرل من آنگ ہلینگ (Min Aung Hlaing)  ہی سب سے نمایاں ہیں۔ اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد فوجی حکومت نے ملک میں فیس بک کو بند کرنے کی کوشش بھی کی تھی، جو ناکام رہی تھی۔

No comments.

Leave a Reply