ناروے کے میگنس ارلسن شطرنج کے نئے عالمی چیمپیئن بن گئے ہیں

ناروے کے میگنس ارلسن

ناروے کے میگنس ارلسن

چنئی ۔۔۔ نیوز ٹائم       

ناروے کے میگنس ارلسن شطرنج کے نئے عالمی چیمپیئن بن گئے ہیں۔

انہوں نے جنوبی ہند کے شہر چنئی میں انہوں نے بھارت کے پانچ بار کے عالمی چمپیئن وشوناتھن آنند کو باآسانی شکست دے کر عالمی خطاب حاصل کیا۔

ارلسن نے جمعہ کو کھیلی جانے والی دسویں بازی میں وشوناتھن آنند کو ڈرا کھیلنے پر مجبور کیا اور اسی کے ساتھ ہی انھوں نے خطاب کے لیے ضروری نصف پوائنٹ بھی حاصل کر لیا۔

اس چیمپئن شپ میں ارلسن کے ساڑھے چھ اور آنند کے کل ساڑھے تین پوائنٹس رہے۔

فتح کے بعد ارلسن نے کہا کہ میں صرف کوشش کرتا ہوں اور بہترین چالیں چلتا ہوں۔

عالمی شطرنج چیمپیئن شپ کے شروع ہونے سے پہلے ہی شطرنج کے ماہرین نے یہ خیال ظاہر کیا تھا کہ یورپ میں شطرنج کی دنیا میں سنسنی پھیلانے والے میگنس ارلسن یہ خطاب اپنے نام کر لیں گے۔

واضح رہے کہ ارلسن نے 22 سال کی عمر میں شطرنج کا یہ عالمی خطاب حاصل کیا ہے جو اپنے آپ میں کسی کارنامے سے کم نہیں۔اس طرح ارلسن روس کے گیری اسپاروف کے بعد دوسرے کھلاڑی بن گئے جنھوں نے اتنی کم عمر میں اس اہم خطاب کو حاصل کیا ہے۔

چیمپیئن شپ میں ارلسن کی قوت متخیلہ کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے چنئی میں ایک بھی بازی نہیں ہاری۔

جب ارلسن نے آنند کو پانچویں اور چھٹی بازی میں شکست دی اس وقت عمومی طور پر یہ مانا جانے لگا کہ وہ یہ خطاب حاصل کر لیں گے کیونکہ اس جیت کے ساتھ انھیں چار دو کی برتری حاصل ہوگئی تھی۔

اس کے بعد نویں بازی جیت کر انھوں نے آنند کی رہی سہی امید بھی ختم کر دی۔

اس طرح کے بڑے مقابلوں میں واپسی کرنے میں ماہر سمجھے جانے والے اور 2000 ، 2007 ، 2008 ، 2010 اور 2012 کے عالمی چیمپئن آنند کو ارلسن نے برلن ڈیفنس کے جال میں ایسا پھنسایا کہ اسے توڑنا تو دور، وہ اس سے نکل ہی نہیں سکے۔

معروف کھیل صحافی اور شطرنج کے تجزیہ نگار وی رشناسوامی نے ارلسن کی کامیابی کی پانچ وجوہات بتائیں۔

ان کے مطابق سب سے بڑی وجہ تو یہ ہے کہ آنند کی عمر اب 44 سال ہو چکی ہے جبکہ ارلسن 30 نومبر کو 23 سال کے ہوں گے۔ دوسری یہ کہ آنند کی ابتدائی چالیں ناکام رہیں جوکبھی ان کی سب سے بڑی طاقت ہوا کرتی تھیں۔

تیسری وجہ ارلسن نے آخری چالوں میں انتہائی جارحانہ کھیل کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے کم سے کم دو بار آنند کو بازی کے آخری دور میں ہی شکست دی جبکہ چوتھی وجہ آنند پر توقعات کا دباؤ واضح طور پر عیاں تھا۔

پانچویں وجہ یہ رہی کہ وسیع تجربہ ہونے کے باوجود آنند نے غلطیاں کیں جن کا فائدہ ارلسن کو ملا۔

مثال کے طور پر نویں بازی میں جہاں بازی ڈرا ہونے کے پورے امکانات تھے وہاں انہوں نے اپنی 28 ویں چال میں غلطی کی جس کی وجہ سے وہ بازی ہار گئے اور اس کے ساتھ ہی ارلسن کی جیت کا منظر نامہ بھی تیار ہو گیا۔

ارلسن کی خصوصیت کا ذکر کرتے ہوئے رشناسوامی نے کہا کہ درمیانی کھیل پر ان کی پکڑ بے حد مضبوط ہے اور گزشتہ چار پانچ برسوں کے دوران اسی کی بدولت وہ اتنے بڑے کھلاڑی بن کر ابھرے ہیں۔

 

No comments.

Leave a Reply