ترکی نے خواتین کے خلاف تشدد سے متعلق یورپی معاہدہ سے دستبرداری

"آپ کبھی بھی تنہا نہیں چلیں گے" کے نعرے کے تحت مظاہرین ہفتہ کے روز استنبول میں نکلے۔

“آپ کبھی بھی تنہا نہیں چلیں گے” کے نعرے کے تحت مظاہرین ہفتہ کے روز استنبول میں نکلے۔

استنبول ۔۔۔ نیوز ٹائم

ترک صدر طیب رجب اردگان نے خواتین کے تحفظ کے لیے بنائے گئے بین الاقوامی معاہدے سے خود کو علیحدہ کر لیا۔ غیر ملکی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق استنبول کنونشن کے نام سے کونسل آف یورپ کے اس معاہدے میں گھریلو تشدد کو روکنے اور قانونی چارہ جوئی کرنے سمیت مساوات کے فروغ کا ذکر ہے۔ ترکی نے اس معاہدے پر 2011 ء میں دستخط کیے تھے تاہم حالیہ برسوں میں ملک میں عورتوں کے قتل کے کیسز میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔سرکاری گزٹ میں معاہدے کے خاتمے کی کوئی وجہ نہیں بتائی گئی تاہم اعلی سرکاری عہدیداروں کا کہنا تھا کہ  بیرونی سطح پر تصیح کے بجائے گھریلو قوانین خواتین کے حقوق کا تحفظ کرے گا۔ استنبول میں سینکڑوں خواتین نے حکومت کے اس اقدام کے خلاف احتجاج کیا۔ ایک طالبہ ہاتیس یلکو (Hatice Yolcu) نے کہا کہ ہم ہر روز خواتین کے قتل کی خبریں سنتے ہیں، یہ قتل کبھی ختم نہیں ہوتا، عورتیں مرتی رہتی ہیں، مردوں کے ساتھ کچھ نہیں ہوتا۔ یورپ کی 47 رکنی کونسل کی سیکریٹری جنرل مارجیا پیجسینووک برک (Marija Pejcinovic Buric)نے ترکی کے مذکورہ فیصلے کو تباہ کن قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ اقدام ایک بہت بڑا دھچکا ہے اور افسوسناک ہے کیونکہ اس سے ترکی سمیت پورے یورپ میں خواتین کی حفاظت پر سمجھوتہ ہوتا ہے۔

دوسری جانب معاہدہ خاتم کرنے پر ناقدین کا کہنا تھا کہ ترکی نے یورپی یونین سے دور ہونے کے لیے ایک اور قدم اٹھایا ہے۔ ان کا موقف ہے کہ کنوینشن اور اس سے متعلقہ قانون سازی کو مزید سختی سے نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔ جرمنی نے کہا کہ ترکی کے فیصلے نے غلط تاثر دیا ہے۔ جرمن وزارت خارجہ نے کہا کہ نہ تو ثقافتی، مذہبی اور نہ ہی دیگر قومی روایات خواتین کے خلاف تشدد کو نظرانداز کرنے کا بہانہ بنا سکتی ہیں۔ واضح رہے کہ ترکی خواتین کے قتل سے متعلق سرکاری اعداد و شمار اکٹھا نہیں کرتا ہے۔ تاہم اس پر نظر رکھنے والے ایک گروپ کے مطابق گزشتہ 10 سالوں میں شرح میں تقریبا 3 گنا اضافہ ہوا ہے اور رواں سال اب تک پراسرار طور پر 78 خواتین کا قتل یا ان کی موت ہو چکی ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ ترکی میں 38 فیصد خواتین اپنی زندگی میں شریک حیات کی طرف سے تشدد کا نشانہ بنتی ہیں جبکہ اس کی نسبت یورپ میں تعداد 25 فیصد ہے۔ ترکی کی ایک معروف مصنف الف شفک (Elif Shafak)نے اس اقدام کے بارے میں سماجی روابط کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ اس تعصب پرستی، حب الوطنی، بے حسی پر شرم آنی چاہیے جو خواتین کے بجائے غنڈوں اور قاتلوں کی حفاظت کرتی ہے۔

No comments.

Leave a Reply