تیئس مارچ اور آدھا سچ

عام طور پر 23 مارچ کو یومِ پاکستان منانے کی یہ وجہ بیان کی جاتی ہے کہ اس دن منٹو پارک لاہور میں آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس میں مسلمانوں کیلئے ایک علیحدہ ریاست قائم کرنے کے حق میں قرارداد منظور کی گئی

عام طور پر 23 مارچ کو یومِ پاکستان منانے کی یہ وجہ بیان کی جاتی ہے کہ اس دن منٹو پارک لاہور میں آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس میں مسلمانوں کیلئے ایک علیحدہ ریاست قائم کرنے کے حق میں قرارداد منظور کی گئی

نیوز ٹائم

ہم پاکستانیوں کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہمیں اپنی تاریخ کے متعلق ہمیشہ آدھا سچ بتایا گیا۔ آدھے سچ کی عمارت پر جو پاکستان کھڑا کیا گیا اس کا جغرافیہ بدل دیا گیا اور ہم نے آدھا پاکستان کھو دیا۔ آج بھی پاکستان میں کسی پبلک فورم پر یہ بحث کرنا بہت مشکل ہے کہ وہ ڈھاکہ جہاں 1906ء میں آل انڈیا مسلم لیگ نے جنم لیا اور وہ ڈھاکہ جہاں 23 مارچ1940ء کی قرارداد پیش کرنے والے اے کے فضل الحق دفن ہیں، اس ڈھاکہ میں 16 دسمبر 1971ء کو پاکستانی فوج نے ہندوستانی فوج کے سامنے ہتھیار کیوں ڈالے؟ افسوسناک امر یہ ہے کہ ہماری یونیورسٹیوں اور کالجوں میں سقوطِ ڈھاکہ کی وجوہات پر بحث تو دور کی بات وہاں تو 23 مارچ کے بارے میں بھی پورا سچ نہیں پڑھایا جاتا۔ جب تک ہم 23 مارچ کے بارے میں پورا سچ بولنا شروع نہیں کریں گے ہم 16 دسمبر کے سچ تک بھی نہ پہنچ پائیں گے۔

عام طور پر 23 مارچ کو یومِ پاکستان منانے کی یہ وجہ بیان کی جاتی ہے کہ اس دن منٹو پارک لاہور میں آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس میں مسلمانوں کیلئے ایک علیحدہ ریاست قائم کرنے کے حق میں قرارداد منظور کی گئی۔ کچھ تاریخ دانوں نے یہ سوال اٹھایا کہ اس قرارداد میں لفظ علیحدہ ریاست استعمال ہوا یا ریاستیں استعمال ہوا؟ 1946ء کی قرارداد دہلی میں اس سوال کا جواب موجود ہے کیونکہ ریاستوں کی جگہ ایک ریاست کے مطالبے نے لے لی۔  23مارچ کا پورا سچ یہ ہے کہ 22،23 اور 24 مارچ کو لاہور میں آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں صرف ایک قرارداد منظور نہیں ہوئی تھی بلکہ 4 قراردادیں منظور ہوئی تھیں اور دوسری قرارداد فلسطین کے متعلق تھی۔

23مارچ کی اصل تاریخ یہ ہے کہ ان 4 قراردادوں کو منظور کرنے سے پہلے ہونے والے اجلاس میں قائد اعظم محمد علی جناح نے 22 مارچ کو 100 منٹ طویل تقریر کی۔ اس تقریر اور لاہور کے اجلاس کی مکمل کارروائی کو مسلم لیگ نے اکتوبر1940ء میں ایک کتاب کی صورت میں بمبئی سے شائع کیا۔ قائد اعظم نے اپنی زندگی میں ہی قرارداد لاہور کو قرارداد پاکستان قرار دے دیا اور1941ء سے 1947ء تک مسلسل 7 سال مسلم لیگ 23 مارچ کو یوم پاکستان پر جلسے جلوس منعقد کیا کرتی تھی۔ پاکستان بن جانے کے کچھ عرصہ بعد 11 ستمبر 1948ء کو قائد اعظم کا انتقال ہو گیا اور بدقسمتی سے پاکستان کو برطانوی حکومت کے وفادار فوجی افسروں اور بیوروکریسی نے اپنے شکنجے میں جکڑ لیا۔  یوم پاکستان کو ایک فوجی پریڈ تک محدود کر دیا گیا اور 22 مارچ کے دن کی گئی قائد اعظم کی تقریر کو نصابی کتب سے غائب کر دیا گیا جس کے بغیر قرارداد پاکستان کو سمجھنا بہت مشکل ہے۔

22مارچ1940ء کو لاہور میں قائد اعظم کی تقریر دراصل ان کا خطبہ صدارت تھا۔ اس تقریر کے آغاز میں انہوں نے اعلان کیا کہ عورتوں کو اپنی جدوجہد میں شریک کرنا بہت ضروری ہے لہذا ہر صوبہ اور ہر ضلع میں مسلم لیگ کا شعبہ خواتین قائم کیا جائے۔ آگے چل کر بانی پاکستان نے کانگریس اور برطانوی حکومت کی ملی بھگت کو واضح الفاظ میں بے نقاب کیا اور کہا کہ مجھے کبھی یہ خیال بھی نہ تھا کہ کانگریس اور انگریز حکومت میں ایسی ملی بھگت اور خفیہ عہد و پیمان ہوں گے جو تحریری شکل میں تو موجود نہیں لیکن ان پر ایسے عمل ہو گا کہ ہم مسلمان ہزار چیخیں ہماری کوئی شنوائی نہ ہو گی۔  قائدچ اعظم نے اس تقریر میں کہا کہ ہم مسلمان ایک اقلیت نہیں بلکہ ایک ملت ہیں لیکن کانگریس اور انگریز حکومت ہمیں صرف اقلیت رکھنا چاہتی ہے۔ پھر قائدچ اعظم نے ہندوئوں کے ایک مشہور لیڈر لالہ لاجپت رائے کی طرف سے سی آر داس کو لکھے جانے والے ایک خط کا حوالہ دیا اور بتایا کہ یہ خط اندر پرکاش کی کتاب میں موجود ہے اور اس خط میں لالہ لاجپت رائے نے لکھا کہ مسلمانوں اور ہندوئوں کا اتحاد نہیں ہو سکتا کیونکہ مسلمانوں کا مذہب اس اتحاد کی راہ میں رکاوٹ ہے۔  یہ وہی لالہ لاجپت رائے ہیں جنہوں نے اپنی والدہ کے نام پر لاہور میں گلاب دیوی ہسپتال بنایا۔ اسی لالہ لاجپت رائے کے خط کے اقتباسات قائد اعظم نے مسلم لیگ کے اجلاس میں پیش کئے اور کہا جو بات لالہ لاجپت رائے کو بہت پہلے سمجھ آ گئی وہ گاندھی کو کیوں سمجھ نہیں آتی؟ قائد اعظم نے کہا کہ مسلمان اور ہندو کا فلسفہ حیات جدا، مذہبی عادات و اطوار جدا، لٹریچر جدا، یہ دو تہذیبیں ہیں یہ کبھی ایک قوم نہیں بن سکتے۔ پھر انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہندوستان کو آج جو مصنوعی وحدت حاصل ہے یہ انگریز کی سنگینوں کے بل بوتے پر قائم ہے۔ قائد اعظم نے گاندھی کے عدم تشدد کے فلسفے کا پردہ چاک کرتے ہوئے اس تقریر میں کہا کہ گاندھی نے سکھر کے ہندوئوں کو مشورہ دیا کہ وہ اپنی مسلح پرائیویٹ جماعتیں بنائیں اور مزاحمت کریں۔

قائد اعظم کی اس تقریر کو غور سے پڑھیں تو محسوس ہوتا ہے کہ انہیں 1940ء میں نظر آ گیا تھا کہ کانگریس اور ہندو مہاسبھا اندر سے ایک ہیں۔ آج بھی نریندر مودی کے ہندوستان میں مسلمانوں کو لالہ لاجپت رائے کی نظر سے دیکھا جا سکتا ہے۔ قائد اعظم نے اپنی اس تقریر میں فلسطین کا بھی ذکر کیا اور برطانوی حکومت سے مطالبہ کیا کہ فلسطینی مسلمانوں کے ساتھ ظلم بند کیا جائے۔ کچھ لوگ یہ دعوی کرتے ہیں کہ 23 مارچ کو قرارداد لاہور انگریزوں نے سر ظفر للہ خان کے ذریعے تیار کرائی تھی۔ تاریخی حقائق ایسے تمام دعوئوں کی تردید کرتے ہیں۔ 22مارچ کو قائد اعظم کی تقریر میں 23 مارچ کی قرارداد کی جھلک واضح نظر آ رہی تھی جو 24 مارچ کو منظور ہوئی۔ قرارداد پیش کرنے والے بنگالی لیڈر اے کے فضل الحق کو قائد اعظم کی وفات کے بعد غدار قرار دے دیا گیا۔ پہلی قرارداد پر بحث کے بعد قائد اعظم نے دوسری قرارداد پیش کرنے کا اعلان کیا۔ یہ قرارداد عبد الرحمن صدیقی نے پیش کی۔ قرارداد میں برطانوی فوج کو خبردار کیا گیا کہ وہ فلسطینی عربوں کو محکوم بنانے کی کوششوں سے باز رہے۔ تیسری قرارداد لاہور میں خاکساروں پر پولیس حملے کی مذمت اور چوتھی قرارداد صوبائی مسلم لیگوں کو مرکزی ورکنگ کمیٹی کے قواعد و ضوابط کا پابند بنانے سے متعلق تھی جس سے صاف پتہ چلتا تھا کہ قائد اعظم  پارٹی کو جمہوری طریقے سے چلانے پر یقین رکھتے تھے انہوں نے پارٹی میں آمریت قائم نہیں کی تھی۔

اس اجلاس میں جن خاکساروں پر پولیس کے حملے کی مذمت کی گئی انہی خاکساروں نے قائد اعظم پر قاتلانہ حملہ بھی کیا تھا اور ان کے جلسوں میں گڑ بڑ کی کوشش بھی کی لیکن قائد اعظم  سیاسی اختلاف کو ذاتی انتقام بنانے پر یقین نہیں رکھتے تھے۔ قائداعظم کی وفات کے بعد جمہوری اور فوجی آمر 23 مارچ کو صرف ایک فوجی پریڈ تک محدود نہ کرتے اور 23 مارچ کے متعلق پورا سچ قوم کو بتاتے تو یہ ایک قوم دو ملکوں میں تقسیم نہ ہوتی۔ جب سیاستدانوں نے سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوریت ختم کر دی تو فوجی جرنیلوں نے پاکستان کو جمہوریت سے محروم کر دیا۔ ہم برطانوی سامراج کی غلامی سے آزاد ہو گئے لیکن کبھی امریکی سامراج اور کبھی اپنے ہی آدھے سچ کے غلام بن گئے۔  علامہ اقبال اور قائد اعظم دونوں آمریت اور بادشاہت کے خلاف تھے لیکن آج کے حکمرانوں کو غیر ملکی بادشاہوں کی غلامی بھی قبول ہے اور عالمی مالیاتی اداروں کی غلامی بھی قبول ہے کیونکہ انہیں ریٹائرمنٹ کے بعد ان بادشاہوں سے ملازمت لینا ہوتی ہے۔  اس غلامی سے نجات اسی وقت ممکن ہے جب ہم پورا سچ بولنا سیکھیں گے۔

No comments.

Leave a Reply