یوکرین، روس کا تنازع اور پاکستان و ترکی؟

روسی صدر ولادی میر پیوٹن اور یوکرین کے صدر زیلینسکی

روسی صدر ولادی میر پیوٹن اور یوکرین کے صدر زیلینسکی

کراچی ۔۔۔ نیوز ٹائم

روس کے وزیر خارجہ سرگئی لیوروف پاکستان اور بھارت کا دورہ مکمل کر کے جیسے ہی اپنے ملک پہنچے تو فوری بعد روسی صدر ولادی میر پیوٹن نے روسی افواج کو حکم دیا کہ وہ یوکرین کی جانب روانہ ہو جائیں اور ایک دن سے بھی کم وقت میں 35 ہزار روسی افواج مشرقی یوکرین کی سرحدوں کی جانب روانہ ہو گئیں۔  یوکرین کے صدر زیلینسکی (Volodymyr Zelensky) ترکی کے صدر اردگان سے ملنے 9 اپریل 2021ء کو ترکی پہنچ گئے، جہاں انہوں نے ترکی کے صدر سے ڈرون مانگ لیا اور ساتھ ہی ماسکو نے خبردار کیا ہے کہ یوکرین میں اگر علیحدگی پسندوں کے خلاف کارروائی کی گئی تو مشرقی یوکرین کے روسی زبان بولنے والے باشندوں کی مدد کے لیے روس مداخلت کر سکتا ہے۔ اس سلسلے میں روس کا موقف یہ ہے کہ یوکرین کے صدر زیلینسکی (Volodymyr Zelensky) ہیں اور حالیہ لڑائی کی جڑیں مارچ 2014 ء میں یوکرین کے خطے کریمیا کے روس کے ساتھ الحاق سے ملتی ہیں۔ اس واقعے کے بعد مغربی قوموں اور روس کے درمیان بڑی خلیج حائل ہو گئی تھی۔  یورپی یونین اور امریکا نے روس پر پابندیاں عائد کر دی تھیں۔  روس کے نائب وزیر خارجہ الیگزنڈر گروسکو (Alexander Grushko)  نے کہا تھا کہ ناٹو، روس کو مشرق کی جانب سے ایک مستقل خطرے کے طور پر دیکھنے کی عادت سے جان نہیں چھڑا سکی۔  ایک ماہ بعد ہی روسی حمایت یافتہ باغیوں نے جن میں اکثریت روسی زبان بولنے والے دونباس کی ہے دونتسک اور لوہاسنک کے علاقوں پر قبضہ کر لیا۔  مغربی ممالک اور ناٹو، روس پر یوکرین میں اپنی فوج بھیجے جانے کا الزام عائد کرتے ہیں، تاہم روس کا کہنا ہے کہ وہاں اگر کوئی روسی جنگجو ہے بھی تو وہ رضاکار ہے۔  یوکرین کے صدر زیلینسکی (Volodymyr Zelensky) قیام امن کے وعدے کے ساتھ اقتدار میں آئے اور گزشتہ برس جولائی میں جنگ بندی پر دستخط ہوئے۔  تب سے اب تک فریقین ایک دوسرے پر خلاف ورزی کے الزمات عائد کرتے ہیں۔  روسی حمایت یافتہ باغیوں اور یوکرینی فوج کے درمیان ملک کے مشرقی حصے میں جھڑپیں جاری ہیں۔  ایک اعلی روسی اہلکار دمتری کوزک (Dmitry Kozak)  کا کہنا ہے کہ روس کو گولی ٹانگ پر نہیں چہرے پر ماری جائے گی۔

عالمی اخبارات کے مطابق وائٹ ہائوس کی پریس سیکرٹری جین پساکی کا کہنا تھا کہ 2014 ء میں یوکرین کے تنازع کے آغاز کے بعد سے روسی سرحد پر فی الوقت فوجیوں کی سب سے زیادہ تعداد تعینات ہے۔  انہوں نے صورتحال کو بہت تشویشناک قرار دیا ہے۔  روس نے سرحد پر تعینات اپنے فوجیوں کی تفصیلات نہیں بتائی ہیں تاہم یوکرین کی فوج کے اندازے کے مطابق مارچ تک وہاں 20 ہزار روسی فوجی موجود تھے، لیکن عالمی اخبارات کا کہنا ہے کہ یہ تعداد 35 ہزار کے لگ بھک ہے۔  روسی افواج کی جانب سے سوشل میڈیا پر جاری ہونے والی ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک ٹرین میں بھاری اسلحہ اس علاقے میں پہنچایا جا رہا ہے۔  8اپریل کو ہلاک ہونے والے یوکرینی فوجی کے بعد سے اب تک ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد 25 ہو گئی ہے۔  گزشتہ برس 50 یوکرینی فوجی ہلاک ہوئے تھے، بی بی سی کو باغیوں نے بتایا کہ ان دونیستک شہر کے نواح میں ایک گائوں پر یوکرینی فوجیوں کی جانب سے داغے گئے 14 مارٹر گولوں کے باعث ان کا ایک جنگجو ہلاک ہوا۔ علاقے میں حالات کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلینسکی (Volodymyr Zelensky)  نے 10 اپریل کو علاقے کا دورہ کیا اور لڑائی کی شدت کا اندازہ لگانے کے ساتھ ساتھ انہوں نے دونباس میں مشکل وقت کے دوران فوجیوں کے ساتھ ہونے کا یقین دلایا۔  جس کے فوری بعد بلیک سی میں درجنوں امریکی جہازوں کو روانہ کر دیا گیا اور امریکا نے یورپی یونین سے بھی یوکرین کے دفاع میں اپنی افواج بلیک سی روانہ کرنے کی ہدایت کر دی ہے۔

جرمن دفتر خارجہ اور فرانسیسی وزارت خارجہ نے کہا، ہم اس صورتحال خصوصاً روسی فوج کی نقل و حرکت پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہیں، اور تمام فریقوں سے تحمل کا مظاہرہ کرنے اور کشیدگی کے فوری خاتمے کے لیے کام کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ برلن اور پیرس نے یوکرین کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کے لیے اپنی حمایت کی تصدیق کی، جبکہ روس پر مشترکہ سرحدوں کے ساتھ ساتھ جزیرہ نما کریمین پر بھی ہزاروں فوجیوں کی موجودگی کا الزام لگایا۔ یورپی اخبارات کے مطابق روس، ناٹو پر جارحانہ اور تصادم کا راستہ اختیار کرنے کا الزام عائد کیا ہے لیکن 11 اپریل کو اپنے لڑاکا طیاروں کی پروازوں کے بارے میں کوئی بات نہیں کی ہے۔  ناٹو کے سیکرٹری جنرل نے ماسکو پر زور دیا ہے کہ وہ مذاکرات کے سلسلے کو بحال کریں۔  ناٹو کے سیکرٹری جنرل جینز اسٹولٹن برگ نے 12 اپریل کو اس سلسلے میں امریکا کے وزیر خارجہ اینتھونی بیلکن کے ناٹو کے ہیڈکواٹر کے دورے کے دوران کہا تھا کہ روس کے ساتھ ایسے تعلقات ہوں جن میں استحکام ہو اور غیر متوقع اتار چڑھائو کا شکار نہ ہوں۔  ناٹو کے مطابق روس کے لڑاکا فضائی طیاروں نے کسی بھی موقع پر ناٹو ممالک کے فضائی حدود کی خلاف ورزی نہیں کی۔  ناٹو حکام کا کہنا ہے کہ ان کے طیاروں نے 12 جگہوں پر روس کے طیاروں کو آگے آنے سے روکا۔  ناروے کے ایف 16 طیاروں نے روس کے دو ٹی یو 95 بئیرز کو ناروے کے ساحلوں کے قریب روک لیا تھا۔  روس کے طیاروں نے اس کے بعد شمالی سمندر میں جنوب کی جانب پرواز کی جس پر برطانوی اور بلجیم کی فضائیہ کے طیاروں کو حرکت میں آنا پڑا۔  بعد ازاں روسی فضائیہ کے دو ٹی یو 160 بلیک جیک بمبار طیارے کو ناروے کی فضائیہ نے پیچھے جانے پر مجبور کیا۔  اتحادی فضائیہ کے جہاز بحیرہ اسود پر بھی روسی طیاروں کے راستے میں آئے۔

ادھر اطالوی فضائیہ نے بالٹک میں کالنانگرڈ کے قریب سمندروں کی نگرانی کرنے والے ایک روسی جہاز کو اپنا رخ موڑنے پر مجبور کیا۔ روس اور ناٹو ممالک کے تعلقات میں 2014 ء کے بعد سے کشیدگی کم نہیں ہوئی ہے جب روس نے کرایمیا اور روس کے حمایت یافتہ باغیوں نے مشرقی یوکرین پر قبضہ کر لیا تھا۔ روس سے جرمنی تک بچھائی جانے والے گیس پائپ لائن نارڈ اسٹریم ٹو کی امریکا کی طرف سے شدید مخالفت کے باعث یہ تعلقات مزید کشیدگی کا شکار ہو گئے تھے۔  امریکا کے وزیر خارجہ انتھونی بیلکن نے کہا تھا جو کمپنیاں اس منصوبے میں حصہ دار بنیں گی ان پر امریکا کی طرف سے پابندیاں عائد کی جا سکتی ہیں۔  ناٹوکے سیکرٹری جنرل جینز اسٹولٹن برگ نے کہا گزشتہ ہفتے روس کو ناٹو اور روسی کونسل کی سطح پر مذاکرات بحال کرنے کی پیشکش کی تھی جس کا اجلاس 2019 ء سے نہیں ہو سکا۔  روس، یوکرین کے درمیان جاری تنازع کے دوران ہی روس نے پاکستان کو ہر طرح کی دفاعی مدد کا وعدہ کیا ہے اور اس کے برعکس بھارت نے اس سلسلے میں روس کو یکسر انکار کر دیا۔  بھارت کے دورے کے دوران روسی وزیر خارجہ سرگئی لیوروف سے بھارتی وزیر ِاعظم مودی نے ملنے سے انکار کر دیا تھا اور امریکا کے کہنے پر بھارت F4 دفاعی میزائل کی خریداری کا 5 ارب 50 کروڑ ڈالرز کا سودہ بھی منسوخ کر دیا ہے اب یہی F4 دفاعی میزائل پاکستان خرید رہا ہے اور روس نے اس کی قیمت بھی کم کر دی ہے۔  اس کے علاوہ بھی روسی اسلحہ کی خریداری کے معاہدے بھی ہو چکے ہیں اور اس میں اضافے کا امکان بھی ہے۔  ادھر دوسری جانب ترکی، یورپی یونین، امریکا اور  یوکرین میں روس کے خلاف صف بندیاں کر رہے ہیں۔  کیا روس کی دوستی میں پاکستان اور ترکی کے درمیان خلیج کا خدشہ ہے۔  یوکرین اور روس کی لڑائی میں پاکستان کو ایک متوازن خارجہ پالیسی کی ضرورت ہے۔

No comments.

Leave a Reply