روس، امریکا کشیدگی تیسری عالمی جنگ کی تیاری ہے؟

روس کےصدر پیوٹن اور امریکہ کے صدر جو بائیڈن ، فائل فوٹو

روس کےصدر پیوٹن اور امریکہ کے صدر جو بائیڈن ، فائل فوٹو

نیوز ٹائم

روس اور امریکا میں بڑھتی ہوئی کشیدگی دنیا کو تیسری عالمی جنگ کی طرف دھکیل رہی ہے۔ 1952 کے بعد پہلی مرتبہ امریکا، روس کشیدگی کی وجہ دونوں ممالک درمیان عملی طور پر سفارتی تعلقا ت میں جمود طاری ہو گیا ہے اور دونوں ممالک کے سفیر ایک دوسرے ملک میں موجود نہیں ہیں۔  امریکا میں روس کے سفیر اپنے سفارتکاروں کے نکالے جانے پر احتجاجا روس واپس آ گئے اور اس کے بعد امریکا کے سفیر واپس امریکا چلے گئے۔  کہا یہی جا رہا ہے کہ یہ عارضی ہے، حقیقت یہی ہے کہ دونوں ممالک کے سفارتی تعلقات عارضی طور پر ختم ہو گئے ہیں۔  اس سلسلے میں امریکا کا کہنا ہے کہ روس، یوکرین میں بڑھتی ہوئی فوجی طاقت میں کمی کرے۔ امریکا کا کہنا ہے کہ روسی دستے یوکرین میں مداخلت کے لیے تعینات کیے گئے ہیں۔  تجزیہ کاروں کے مطابق بڑے پیمانے پر مداخلت کا امکان کم ہے۔ دراندازی روس کا آزمایا ہوا اور پرانا طریقہ ہے۔  روس کے خصوصی دستے 2014 ء میں بھی کریمیا پر قابض ہوئے تھے۔  ان میں نقاب پوش فوجی شامل تھے جنہوں نے سبز رنگ کے یونیفارم پہن رکھے تھے، اسی لیے انہیں لٹل گرین مین بھی کہا جاتا ہے۔

برطانوی تھنک ٹینک دا ہنری جیکسن (The Henry Jackson)  سوسائٹی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ قطب شمالی میں روس نے فوجی تربیت اور مشقوں میں اضافہ کیا ہے، نئی بریگیڈز بنائی ہیں اور قدرتی وسائل کا استحصال کر رہا ہے۔  رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ماسکو نئے برف توڑ بحری جہاز بنا رہا ہے، سوویت دور کے فوجی اڈے دوبارہ کھول دیے گئے ہیں اور قطب شمالی میں میزائل وارننگ نظام بھی نصب کر دیا ہے۔ روس اور یوکرین کے درمیان تعلقات تنائو کا شکار رہے ہیں اور غیر جانبدار ذرائع بتانے ہیں کہ یہ جنگ بہت قریب ہے۔  متنازع علاقوں میں فورسز کے درمیان وقفے وقفے سے جھڑپیں ہوتی ہیں لیکن روس نے دسمبر 2019ء کو بین البراعظمی ہائپر سونک میزائل تیار کر لیا تھا، جو آواز کی رفتار سے بھی 27 گنا تیز رفتاری سے اپنے ہدف کو نشانہ بنا سکتا ہے۔  صدر پیوٹن کی جانب سے اس میزائل کو لوڈ کرنے کا اعلان کیا ہے اس کے علاوہ روس نے مارچ 2018ء میں نئے ہائپر سونک میزائل کا بھی کامیاب تجربہ کیا تھا۔  روسی وزارت ِ دفاع کی جانب سے جاری کردہ ویڈیو میں اس میزائل کو ایک لڑاکا طیارے سے لانچ ہوتے دکھایا گیا تھا۔  اب ایک مرتبہ پھر ناٹو کی فضاوں میں بین البراعظمی ہائپر سونک روسی میزائل سے لیس لڑاکا طیاروں کی پرواز بھی جاری ہے۔  اس سلسلے میں کہا جا سکتا ہے کہ یہ نہ تو کوئی باقاعدہ جنگ ہے اور نہ ہی سرد جنگ۔ لیکن روس کی تیاری بہت زیادہ نظر آ رہی ہے روس جی آر یو اسپیشل فورسز، سائبر وار فیئر اور پروپیگنڈا استعمال کرتا ہے جسے ہائبرڈ وار فیئر بھی کہتے ہیں۔  گزشتہ سال امریکی کانگریس میں پیش ہونے والی ایک خصوصی رپورٹ میں جی آر یو کے کردار کو تفصیلی طور پر پیش کیا گیا تھا۔  امریکا بھی اسی پیمانے کے جنگی تیاری بہت پہلے مکمل کر چکا ہے۔

روس دوبارہ یوکرین کو دھمکی کیوں دے رہا ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ روس اور یوکرین کے درمیان تعلقات میں متعدد عوامل تنائو میں اضافے کا باعث بنے ہیں۔ یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلینسکی (Volodymyr Zelensky) نے فروری میں صدر پیوٹن کے دوست اور یوکرین کی طاقتور کاروباری شخصیت وکٹر میدویڈچک (Viktor Medvedchuk)  پر پابندیاں عائد کیں۔  یوکرین نے روس کی حمایت کرنے والے تین ٹی وی اسٹیشنوں پر بھی پابندی لگا دی ہے۔ 2015 کے امن معاہدے میں کئی شرائط پر عملدرآمد ابھی باقی ہے۔ مثلا علیحدگی پسندوں کے علاقے میں تاحال آزادانہ انتخابات کی نگرانی کے لیے انتظامات نہیں کیے جا سکے ہیں۔ کچھ افواہیں یہ بھی ہیں کہ صدر پیوٹن امریکا کے صدر جو بائیڈن کو آزمانا چاہتے ہیں۔ صدر بائیڈن نے اپنے پیشرو ٹرمپ کے مقابلے میں روس سے متعلق سخت موقف اختیار کیا ہے۔ صدر جو بائیڈن، پیوٹن کے خلاف جیل میں قید اپوزیشن رہنما الیکسی نوالنی (Alexei Navalny)  کے حق میں بیان دے کر اس جنگ کو بھڑکانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یوکرین ناٹو اتحاد کا رکن نہیں مگر ناٹو کے یوکرین سے قریبی تعلقات ہیں، اور انہیں تعلقات کی وجہ سے یوکرین کو مغربی ہتھیار دیے گئے ہیں جن میں امریکی جیولن انٹی ٹینک میزائل بھی شامل ہیں۔  جس کے جواب میں روس نے ایک ہفتے قبل ہائبرڈ وار ٹینک کا تجربہ کیا اور اس کو میدانِ جنگ میں بھی اتار دیا گیا ہے۔

یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلینسکی (Volodymyr Zelensky) نے ناٹو پر زور دیا ہے کہ یوکرین کو اس اتحاد کا رکن بنایا جائے لیکن لڑائی جاری ہونے کی وجہ سے ناٹو کے لیے فی الحال یہ ایک مشکل کام ہے کہ یوکرین کو اس 30 ملکی اتحاد میں شامل کیا جائے۔  ناٹو کے سیکرٹری جنرل جینز اسٹولنبرگ (Jens Stoltenberg) نے عالمی میڈیا سے کہا ہے کہ ناٹو، یوکرین کی فوج کی تربیت اور مشترکہ فوجی مشقوں سے مدد کر رہا ہے۔ روس کے صدر ولادی میر پیوٹن کی جانب سے ایک سرکاری ویب سائٹ پر جاری کردہ حکم نامے کے مطابق روسی مسلح افواج کی تعداد بڑھا کر 19 لاکھ کر دی جائے گی۔  جاری کردہ دستاویز کے مطابق یکم جولائی 2017 ء سے روسی مسلح افواج کی تعداد 19 لاکھ 3 ہزار 51 ہو گئی تھی۔

ادھر دوسری جانب ناٹو نے روس کی سرحدوں کے قریب 40 ہزار فوج، اور 15 ہزار ہتھیار اور فوجی سامان بحیرہ اسود اور بالٹک علاقوں میں پہنچا دیا ہے جن میں اسٹرٹیجک طیارے بھی شامل ہیں۔ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ روس، امریکا کشیدگی تیسری عالمی جنگ کی تیاری ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا میں امن اور جمہوریت کی پکار کرنے والوں کو یہ بات یاد رکھنا چاہیے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا جنگ و جدل کا میدان بنی رہی اور عالمی اقوام کا یہ پلیٹ فارم خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتا رہا۔ ویتنام کی خوفناک جنگ، پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والی تین جنگیں، چین اور بھارت کی جنگ، ایران، عراق جنگ، گلف وار سمیت مختلف جنگوں میں اقوام متحدہ اپنا کردار ادا کرنے سے قاصر رہا اور اس کی اسی کمزوری کے باعث اب دنیا جنگ و جدل کا کھلا میدان بن چکی ہے۔

جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے مصداق طاقتور کمزور کو زیر نگیں کرنے میں مصروف ہے۔ فلسطین، افغانستان، عراق، لیبیا، شام، برما (روہنگیائی مسلمان) اور یمن میں انسانی خون اتنا کم قیمت ہو گیا ہے کہ ان کے لیے کوئی دو آنسو بہانے کو بھی تیار نہیں۔ ناانصافیوں، ظلم اور اپنی طاقت منوانے کی بے لگام خواہشات نے دنیا میں جنگ کا ایندھن پھر سے گرم کر دیا ہے۔  دنیا بدل رہی ہے، آخر کوئی کب تک اور کتنا ظلم سہے گا؟ امریکا کب تک اپنی عالمی بالادستی قائم رکھے سکے گا؟ چین، روس، پاکستان، ترکی اور ایران جیسے ممالک پر مشتمل بلاک جلد امریکا کو چیلنج کرنے کی پوزیشن میں آ سکتا ہے۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ عالمی جنگوں نے سپر پاورز کی حیثیت کو تبدیل کیا ہے۔  دوسری جنگ عظیم اس کی واضح مثال ہے۔  وہ برطانیہ جس کی حدود میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا اور پوری دنیا میں اس کی کالونیاں تھیں، وہ خود بتدریج امریکی کالونی کی شکل اختیار کر گیا۔  ان تمام معروضی حالات میں امریکا کے لیے یہی بہتر ہو گا کہ وہ دنیا کو ایک اور جنگ کی طرف نہ دھکیلے وگرنہ طاقت کا توازن اس کے ہاتھ سے نکل کر کہیں اور جا سکتا ہے اور یقینا امریکا کے باشعور عوام مستقبل میں کسی کی کالونی بننا پسند نہیں کریں گے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ دنیا کو اپنے تسلط میں رکھنے والا ملک خود کسی اور کے تسلط میں آ جائے۔

No comments.

Leave a Reply