افغانستان میں مزید تباہی کا منصوبہ؟

افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا رواں سال 11 ستمبر تک مکمل ہو گا

افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا رواں سال 11 ستمبر تک مکمل ہو گا

نیوز ٹائم

افغانستان سے غیر ملکی افواج کے مکمل انخلا کی باتیں چار، پانچ سال سے کی جا رہی ہیں مگر یہ کام ہو کر نہیں دے رہا۔ سبب اس کا یہ ہے کہ افغانستان کے حالات اس سطح پر آ ہی نہیں رہے جہاں پورے اطمینان کے ساتھ معاملات ملکی حکومت کے حوالے کر کے مغربی افواج نکلیں۔ افغانستان میں امریکا اور اس کے اتحادیوں کی افواج کے کمانڈر جنرل اسکاٹ مِلر (General Scott Miller) نے 25 اپریل کو، امریکی صدر جو بائیڈن کے منصوبے کے مطابق، افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا کے آغاز کا اعلان کیا۔ انخلا رواں سال 11 ستمبر تک مکمل ہو گا۔ کیا امریکا دہشتگردی کے خلاف جنگ مکمل طور پر ختم کرنا چاہتا ہے؟ اس حقیقت کو سمجھنے کے لیے ہمیں دیکھنا ہو گا کہ اب تک اس جنگ کے کیا نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ امریکا کو افغانستان میں غیر معمولی جانی نقصان برداشت کرنا پڑا ہے۔ براہِ راست ہونے والا جانی نقصان 2500 سے زائد فوجیوں کا ہے۔ 20000 سے زائد فوجی زخمی ہوئے ہیں۔ افغانستان میں طالبان اور دیگر فریقوں کے ہاتھوں اب تک 4000 سے زائد امریکی کنٹریکٹرز مارے گئے ہیں۔ امریکا کے نام پر کام کرنے والوں میں سے اچھی خاصی تعداد میں زخمی بھی ہوئے۔ افغان نیشنل فورسز کا جانی نقصان 60000 سے زائد ہے۔ افغانستان میں جو کچھ دہشتگردی کے خلاف جنگ کے نام پر کیا جاتا رہا ہے اس کے نتیجے میں بے قصور، نہتے شہری بھی بڑی تعداد میں جاں بحق ہوئے ہیں۔ ان ہلاکتوں کے درست ترین اعداد و شمار مرتب کرنا انتہائی دشوار ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق گزشتہ 10  سال میں شہریوں کی ہلاکتیں 100000 سے زائد ہیں۔ جنگ کے نتیجے میں پیدا ہونے والی معاشی اور معاشرتی خرابیوں، بدانتظامی اور کرپشن کے نتیجے میں جو بالواسطہ اموات واقع ہوئی ہیں ان کے جامع ترین اعداد و شمار مرتب کرنا ممکن نہیں۔

افغانستان میں جنگ جاری رکھنے پر امریکا کو جو کچھ خرچ کرنا پڑا اس کا اندازہ لگانا دشوار ضرور ہے، ناممکن نہیں۔ برائون یونیورسٹی کے مرتب کردہ اعداد و شمار کے مطابق امریکا کو افغانستان میں جنگ پر کم و بیش 2000 ارب ڈالر اور سابق فوجیوں کے علاج وغیرہ پر اضافی 500 ارب ڈالر خرچ کرنا پڑے ہیں۔  جنگی کارروائیوں پر اندازا 1500 ارب ڈالر خرچ ہوئے ہیں تاہم بالکل درست اعداد و شمار ترتیب دینا ممکن نہیں۔ افغان فوج کو تربیت دے کر مسلح کرنے پر 87 ارب ڈالر خرچ ہوئے ہیں۔ اقتصادی امداد اور تعمیرنو پر 54 ارب ڈالر خرچ ہوئے۔ اس رقم کا بڑا حصہ بدعنوانی اور بد انتظامی کی نذر ہوا۔ ضرورت کے مطابق ہسپتال تعمیر کیے گئے نہ اسکول۔ بیش تر اسکول صرف کاغذات میں پائے جاتے ہیں۔ نشہ آور اشیا کی کاشت روکنے کے لیے 10 ارب ڈالر خرچ کیے گئے۔ اور نتیجہ؟ آج افغانستان میں پوست کی کاشت چار گنا ہو چکی ہے۔ دنیا بھر میں غیر قانونی طور پر اگائی جانے والی پوست کا 80 فیصد افغانستان سے آتا ہے۔ افغانستان میں جنگ کے اخراجات ادا کرنے کے حوالے سے امریکا اندرونی طور پر اچھا خاصا مقروض ہو چکا ہے۔  ٹیکس دہندگان سے وصول کردہ فنڈز سے 500 ارب ڈالر قرضوں کے کھاتے میں ادا کرنے ہیں اور ٹیکس دہندگان پر مزید 600 ارب ڈالر کا بوجھ پڑنے والا ہے۔ جس جنگ نے خون کے دریا بہا دیے اور بہت بڑے پیمانے پر مالی نقصان ہوا وہ امریکا کے لیے سیاسی اور عسکری اعتبار سے انتہائی تباہ کن ثابت ہوئی ہے۔  اگر اس کھیل میں کسی نے مزے لوٹے ہیں تو وہ ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس ہے۔  ہتھیار اور فوجی ساز و سامان تیار کرنے والے اداروں نے اس جنگ کے نتیجے میں جی بھر کے منافع بٹورا۔

نیو یارک ٹائمز لکھتا ہے کہ طالبان کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی امریکا و اتحادیوں کی کوششیں ناکامی سے دوچار ہوئی ہیں۔ طالبان ایک بار پھر مضبوط ہو کر ابھرے ہیں۔ ملک کے وسیع رقبے پر وہ یا تو دوبارہ متصرف ہیں یا پھر اس کی تیاری کر رہے ہیں۔  امریکی وزیر خارجہ بلنکن کہتے ہیں کہ امریکا نے طالبان کو اس لیے تسلیم کیا ہے کہ اگر افغانستان میں ان کی حکومت قائم ہو تو وہ زیادہ جبر یا سختی کا مظاہرہ نہ کریں اور عالمی قوتیں بھی ان کی حمایت سے نہ ہچکچائیں۔

نیو یارک ٹائمز مزید لکھتا ہے کہ امریکی محکمہ دفاع (پینٹاگون)، خفیہ ادارے اور اتحادی چاہتے ہیں کہ افغانستان میں کم دکھائی دینے والا نگراں سیٹ اپ موجود رہے تاکہ خطے کے معاملات پر نظر رکھی جا سکے۔  اس حوالے سے ڈونز، دور مار کرنے والے بمبار طیاروں اور جاسوسی کے نیٹ ورکس کے ذریعے معاملات قابو میں رکھنے پر توجہ دی جا رہی ہے۔  امریکی صدر جو بائیڈن نے 2500 فوجیوں کو واپس بلانے کا اعلان کیا تھا جبکہ محکمہ دفاع پہلے سے اعلان کردہ تعداد سے 1000 زائد فوجیوں کو افغان سرزمین پر تعینات رکھنا چاہتا ہے۔ ان میں خود پینٹاگون اور سی آئی اے کی اسپیشل فورسز کے افراد بھی شامل ہیں۔  ان کے علاوہ امریکا کے کم و بیش 16 کنٹریکٹرز موجود ہیں جو افغان فورسز کی تربیت میں اہم کردار ادا کرتے رہیں گے۔ یہ ساری تیاری اس لیے ہے کہ افغانستان کہیں دوبارہ امریکا کے خلاف دہشتگردی کے گڑھ میں تبدیل نہ ہو۔  یہ حقیقت کسی طور نظرانداز نہیں کی جا سکتی کہ امریکا اور اس کے اتحادی مشرقِ وسطی اور وسطی، جنوبی و مشرقی ایشیا کے سنگم پر واقع اس ملک کو یونہی نہیں چھوڑ سکتے۔ اسٹرٹیجک نقطہ نظر سے امریکا کی اولین ترجیح یہ ہے کہ افغانستان میں چین اور روس کے لیے کچھ زیادہ گنجائش نہ چھوڑی جائے۔

No comments.

Leave a Reply