سرمائی اولمپکس پر اومیکرون کے سائے

سرمائی اولمپکس پر اومیکرون کے سائے

سرمائی اولمپکس پر اومیکرون کے سائے

کراچی ۔۔۔ نیوز ٹائم

کورونا کی وبا کے حوالے سے چین پر غیر معمولی الزامات عائد کیے جاتے رہے ہیں۔ ابتدائی طور پر یہی کہا گیا تھا کہ یہ وائرس چین نے تیار کر کے پھیلایا ہے، مگر جب خود چین اس وائرس کی زد میں آیا اور اس پر قابو پانے کے لیے انتہائی سخت اقدامات کیے گئے تب دنیا کو کچھ یقین آیا کہ کورونا وائرس کو تیار کرنے اور پھیلانے میں چین کا ہاتھ نہیں تھا۔  مغربی دنیا نے چین کو مطعون کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ بعد میں مغربی دنیا کو بھی اس وائرس نے یوں لپیٹ میں لیا کہ اس کے سارے کس بل نکل گئے۔

اب چین میں سرمائی اولمپکس ہونے والے ہیں۔ اس بڑے ایونٹ کے حوالے سے صحتِ عامہ سے متعلق چین کی صلاحیت و سکت دائو پر لگی ہوئی ہے۔  چینی قیادت نے اس ایونٹ کو اومیکرون سمیت کورونا کے تمام ویریئنٹس سے محفوظ رکھنے کے حوالے سے کچھ بھی کر گزرنے کا عندیہ دیا ہے، بہت سے اقدامات واضح بھی ہیں۔ اس حوالے سے احمد آباد کے روزنامہ سندیش کا تجزیہ ہم آپ کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔ تین ہفتوں کے بعد چین کے دارالحکومت بیجنگ میں سرمائی اولمپکس کا انعقاد ہونا ہے۔  ٹکٹوں کی فروخت ابھی باقی ہے۔  پروازوں کے شیڈولز میں بھی تبدیلیاں کی جا رہی ہیں۔  اس حوالے سے تشویش اور الجھن بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ کورونا کی وبا نے ایک بار پھر زور پکڑا ہے۔  کورونا کے نئے ویریئنٹ اومیکرون نے بھی صورتِ حال کو انتہائی پریشان کن بنانا شروع کر دیا ہے۔ بیجنگ کے سرمائی اولمپکس سے پہلے غیر یقینیت پھیلی ہوئی ہے۔  کچھ دن پہلے تک معاملہ یہ تھا کہ بیجنگ کے آس پاس کے پانچ شہروں میں کم و بیش دو کروڑ افراد اپنے گھروں تک محدود تھے۔  بیجنگ سے صرف 70 کلو میٹر دور واقع بند شہر تیانجن میں چند ہفتوں پہلے صورتِ حال اتنی بگڑ گئی تھی کہ بیجنگ کو تحفظ فراہم کرنے والی خلیج کہا جا رہا تھا۔  تیانجن میں اومیکرون کی وبا کو کنٹرول کرنے کے حوالے سے مزید اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ وزارتِ صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ تیانجن اور اس سے ملحق قصوبوں، دیہی علاقوں میں کورونا وائرس کا پھیلائو خاصی مدت سے جاری ہے۔ حکام نے تیانجن کے ایک کروڑ 40 لاکھ باشندوں کی ایک بار پھر اسکریننگ کا حکم دیا ہے۔ چین نے اعلان کیا تھا کہ سرمائی اولمپکس زیرو کورونا ماحول میں ہوں گے۔  یہ بہت بڑا چیلنج ہے جس سے نمٹنے کے لیے چینی حکومت کو وسائل غیر معمولی حد تک بروئے کار لانا پڑے ہیں۔

چین نے کورونا کی وبا پر قابو پانے کے حوالے سے بہت کچھ کیا ہے۔ سرمائی اولمپکس کے حوالے سے بھی چینی قیادت بہت محتاط رہی ہے۔ اس کی کوشش رہی ہے کہ 4 فروری سے شروع ہونے والے سرمائی اولمپکس کے دوران صحتِ عامہ کے حوالے کوئی بھی ناخوش گوار واقعہ رونما نہ ہو۔ اسکریننگ پر بہت توجہ دی گئی ہے۔ کورونا کے کیسز سامنے آنے کی صورت میں قرنطینہ کے بھی خاطر خواہ انتظامات کیے گئے ہیں۔ جنہوں نے ویکسین نہیں لگوائی انہیں بیجنگ آمد پر پہلے 21 دن قرنطینہ میں گزارنا ہوں گے۔ جو ویکسین لگوا چکے ہیں وہ بیجنگ آمد اور وہاں سے روانہ ہونے تک الگ تھلگ حلقوں میں رہیں گے۔ آنے سے قبل انہیں دو منفی ٹیسٹ رپورٹس پیش کرنا ہوں گی۔ بیجنگ آمد کے بعد بھی انہیں یومیہ بنیاد پر ٹیسٹ کرانا ہوں گے اور موبائل فون ایپ کے ذریعے صحتِ عامہ کے اہلکاروں کو باقاعدگی سے رپورٹس ارسال کرنا ہوں گی۔

چینی صدر شی جن پنگ نے کہا ہے کہ اومیکرون کی بڑھتی ہوئی لہر اور کورونا کے پرانے ویریئنٹس کے بھی مزید پھیلائو کے باوجود سرمائی اولمپکس کو ہر اعتبار سے محفوظ رکھنے پر توجہ دی جائے گی اور اس حوالے حکام کو ہدایت کی گئی ہے کہ کوئی بھی کسر اٹھا نہ رکھیں۔  حکام کہتے ہیں کہ اومیکرون کی لہر کے باوجود ابھی تک سرمائی اولمپکس سے متعلق منصوبہ بندی میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی ہے۔  بیجنگ میں لاک ڈائون کا بھی فی الحال کوئی امکان نہیں اور کھیلوں کے شیڈول میں بھی کوئی تبدیلی نہیں کی گئی ہے۔  اولمپکس انتظامی کمیٹی کے ترجمان زاو ویڈونگ (Zhao Weidong)  کا کہنا ہے کہ چاہے کچھ بھی کرنا پڑے، سرمائی اولمپکس کے کسی ایک ایونٹ کو بھی کورونا کی وبا سے متاثر نہیں ہونے دیا جائے گا۔ کئی اہم سوال اب تک جواب طلب ہیں۔ ایک بنیادی سوال یہ ہے کہ شائقین کو کس طور آنے دیا جائے گا۔ انتظامی حکام کا کہنا تھا کہ صرف مین لینڈ چائنا سے تعلق رکھنے والے افراد ہی کو سرمائی اولمپکس دیکھنے کی اجازت دی جائے گی۔  وہ بھی صرف تالیاں بجا سکیں گے، خوشامدانہ انداز اختیار کرنے کی اجازت نہیں ہو گی۔

گزشتہ برس ٹوکیو اولمپکس میں صرف اولمپکس ولیج ہی میں کورونا کے 400 سے زائد کیس سامنے آئے تھے۔ کورونا کی وبا کی بھرپور روک تھام اور کیسز کی تعداد انتہائی کم رکھنے کے حوالے سے چینی حکومت نے غیر معمولی نوعیت کے اقدامات کو ترجیح دی ہے۔ اسپورٹس ولیج میں اگر کوئی ایسا شخص سامنے آیا جو کورونا وائرس سے آلودہ پایا گیا تو اسے انتہائی سخت ماحول میں قرنطینہ کیا جائے گا۔ دو بار اس کا کورونا ٹیسٹ کیا جائے گا اور یہ سب کچھ انتہائی غیر لچکدار ماحول والے سرکاری ہسپتال میں ہو گا۔ اسپورٹس ولیج میں وہی رہ سکے گا جس میں کورونا وائرس کا نام و نشان تک نہ ہو گا۔ حکام کو زیادہ تشویش اس بات سے ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ کورونا وائرس سے آلودہ کسی شخص سے رابطہ کرنے پر مقامی طور پر آباد کسی غیر ملکی کو یہ وائرس نہ لگ جائے۔  مقامی لوگوں کو اسپورٹس ولیج کی گاڑیوں تک سے دور رہنے کی ہدایت کی گئی ہے۔  اگر اسپورٹس ولیج کی کسی گاڑی کو حادثہ پیش آ جائے تو اِس حوالے سے الگ ایمبولینس یونٹ قائم کیا گیا ہے۔

سرمائی اولمپکس چینی قیادت کے لیے ایک بہت بڑی آزمائش ہے۔ کورونا کی وبا کا دائرہ محدود رکھنے پر جتنی توجہ چین میں دی گئی ہے شاید کسی اور ملک میں دی گئی ہو۔ کھیلوں کے اس ایونٹ کے حوالے سے چینی قیادت اپنی اہلیت ثابت کرنا چاہتی ہے۔ زیان اور چند دوسرے شہروں میں لوگوں نے کورونا کی روک تھام کے نام پر کیے جانے والے انتہائی غیر لچکدار اقدامات پر شدید ناراضگی بھی ظاہر کی ہے۔ گزشتہ ماہ اس شہر میں خوراک کی شدید قلت بھی پیدا ہو گئی تھی۔ مختلف بیماریوں کی روک تھام کے لیے مغرب میں جو کچھ کیا جاتا ہے اس کے حوالے سے اپنی اہلیت ثابت کرنے کے لیے چینی قیادت سخت اقدامات کا سہارا لے رہی ہے۔ چینی حکومت نے باہر سے آنے والوں کے کورونا ٹیسٹ پر بھی خاصی توجہ دی ہے۔  کورونا کی وبا کے پھیلائو کے خطرے کے پیش نظر مغربی ممالک سے اور مغربی ممالک کے لیے متعدد پروازیں منسوخ بھی کی گئی ہیں۔ باہر سے آنے والوں کے لیے آج بھی چین میں غیر معمولی نوعیت کی پابندیاں ہیں۔ مثلا امریکا سے آنے والے غیر مقیم مسافروں پر لازم ہے کہ جہاں بھی قیام کریں وہاں کورونا ٹیسٹ کرا کے کم از کم دو منفی رپورٹس پیش کریں۔

No comments.

Leave a Reply