مجرمان کی واپسی کے معاہدے کی حتمی منظوری سے قبل برطانیہ سے مزید مشاورت کا فیصلہ

وزیر داخلہ شیخ رشید احمد

وزیر داخلہ شیخ رشید احمد

اسلام آباد ۔۔۔ نیوز ٹائم

حکومت پاکستان نے برطانیہ کے ساتھ مجرمان کی واپسی کے معاہدے کو منظوری کے لیے وفاقی کابینہ میں پیش کرنے سے پہلے برطانوی حکام سے اس پر مزید مشاورت کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ وزارت داخلہ میں پاکستان اور برطانیہ کے درمیان مجرمان کی واپسی کے معاہدے سے متعلق خصوصی وزارتی کمیٹی کا اہم اجلاس وزیر داخلہ شیخ رشید احمد کی صدارت میں منعقد ہوا۔ اجلاس میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، وزیر انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری اور مشیر برائے داخلہ بیرسٹر شہزاد اکبر کے علاوہ سیکریٹری وزارت قانون، ایڈیشنل سیکریٹری داخلہ سمیت دیگر اعلی حکام نے شرکت کی۔ اجلاس میں وفاقی کابینہ کی تشکیل دی گئی خصوصی وزارتی کمیٹی نے پاکستان اور برطانیہ کے درمیان مجرمان کی واپسی کے معاہدے سے متعلق اہم فیصلہ کیا۔ کمیٹی نے طے کیا ہے کہ معاہدے کو وفاقی کابینہ میں لے جانے سے پہلے برطانیہ سے مزید مشاورت کی جائے گی۔ برطانیہ سے مشاورت کے بعد معاہدے کو وفاقی کابینہ سے حتمی منظوری کے لیے پیش کیا جائے گا۔ کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ برطانیہ کے ساتھ مجرمان کی واپسی کے معاہدے کو بہترین عوامی مفاد میں دستخط کیا جائے گا- معاہدے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان مجرمان کا تبادلہ ممکن ہو سکے گا۔

معاہدے سے پاکستان اور برطانیہ اپنے سزا یافتہ مجرمان کو ایک دوسرے کے ممالک واپس بھیج سکیں گے۔ معاہدے سے صرف ایسے شہریوں کو واپس لانے کی اجازت ہو گی جن کو متعلقہ عدالتیں سزائیں سنا چکی ہیں۔ مجرمان واپسی معاہدے سے متعلق مذاکرات کا پہلا رائونڈ اکتوبر 2019 ء میں منعقد ہوا تھا۔ اگر برطانیہ کے ساتھ یہ معاہدہ کرنے میں حکومت کامیاب ہو جاتی ہے تو پاکستان ان 100 سے زائد ممالک کی فہرست میں شامل ہو جائے گا جن کا برطانیہ کے ساتھ یہ معاہدہ موجود ہے اور دونوں ملک سزا یافتہ مجرمان کا تبادلہ کر سکتے ہیں۔ گزشتہ سال کے وسط میں وزیرداخلہ شیخ رشید نے برطانیہ سے مجرمان کی واپسی کے معاہدے کا مسودہ تیار ہونے کا اعلان کیا تھا۔ وزیر داخلہ نے برطانوی وزیر مملکت کو مطلع کیا تھا کہ برطانیہ کے ساتھ جلد از جلد اس معاہدے پر دستخط کرنے کا خواہاں ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ بدقسمتی سے معاہدے کی عدم موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے متعدد ہائی پروفائل مجرمان برطانیہ میں پناہ لے چکے ہیں۔

No comments.

Leave a Reply