حادثہ کا شکار ” Antares ” ناسا کارسد لے جانے والا

ناسا کارسد لے جانے والا '' Antares '' حادثہ کا شکار

ناسا کارسد لے جانے والا ” Antares ” حادثہ کا شکار

واشنگٹن ۔۔۔ نیوز ٹائم

امریکہ کارسد لے جانے والا خود کا راکٹ ا Antares Virginia کے مشرقی ساحل پر واقع کرشیل لانچ پیاڈ سے داغے جانے کے فوری بعد دھماکہ سے شعلہ پوش ہو گیا۔ بیں الاقوامی خلائی اسٹیشن کو کارگو لے جانے کے لیے ناسا خانگی آپریٹر قرار دینے کے بعد سے یہ پہلا حادثہ ہے۔ یہ راکٹ بیں الاقولامی خلائی اسٹیشن میں مقیم چھ خلائی مسافروں کے لیے لازمی اشیاء لے جا رہا تھا۔  Orbital Sciences کے ذریعہ تیار کردہ اور داغا گیا یہ راکٹ 14 منزلہ تھا جسے مشرقی سمندری ساحل سے کل شام 6:22 داغا گیا تھا داغے جانے کے چند سیکنڈ کے اندر ہی دھماکہ ہو گیا تھا اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ آگ کے گولے میں تبدیل ہو گیا۔ بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پروگرام کے منیجر مائک سفریڈنی نے بتایا کہ خلا میں مقیم چھ خلائی مسافروں نے ناسا کے ٹیلی ویثرن پر اس لانچنگ کو دیکھا تھا اور وہ اس کے تباہ ہونے سے مایوس ہو گئے۔ سفریڈنی نے نامہ نگاروں سے کہا کہ خلائی مسافر اس واقعہ سے مایوس ہیں لیکن انہیں یہ اچھی طرح سے معلوم ہے کہ ان کے پاس غذائی سامان سمیت لازمی اشیا ضرورت سے زیادہ مقدار میں موجود ہیں۔ راکٹ میں ہونے والے اس دھماکہ کے محض 14 گھنٹے کے اندر روس کا ایک راکٹ خلائی مسافروں کے لیے ضروری اشیا لے کر وہاں پہنچنے والا ہے اس لئے خلائی مسافروں کے لئے یہ زیادہ فکر کی بات نہیں ہے۔ ناسا کے معاون منتظم Bill Gerstenmaier نے بتایا کہ تباہ ہونے والے راکٹ میں ایسی کوئی چیز نہیں تھی جس کی خلائی مسافروں کو فوری ضرورت ہو اس لئے سامان خراب ہو جانے سے خلائی مسافروں کے لئے کوئی بڑا خطرہ نہیں ہے۔ راکٹ کے تباہ ہونے کی وجوہات کا اب تک پتہ نہیں چل سکا۔ کمپنی کے ایگزیکٹو نائب صدر Culbertson نے بتایا کہ واقعہ کے اسباب کی تفتیش کی جا رہی ہے۔ Bill Gerstenmaier نے کہا کہ ہمیں اب تک اتنا ہی معلوم ہے جتنا آپ لوگوں نے ٹی وی پر دیکھا۔ اس کے فیل ہونے کے اسباب کا اب تک پتہ نہیں چل سکا ہے۔ حکام نے بتایا کہ راکٹ اور جس کارگو شپ کو لے جا رہا تھا اس کی مجموعی قیمت 20 کروڑ ڈالر تھی۔ یاد رہے کہ ورجینا کی Orbital Sciences ان دو کمپنیوں میں سے ایک ہے جس کی خدمات ناسا بین الاقوامی خلائی اسٹیشن تک رسد پہنچانے کے لئے لی جاتی ہیں۔

No comments.

Leave a Reply