پاکستان سے محبت، امیر جماعت اسلامی بنگلہ دیشی مطیع الرحمن نظامی کی موت کا پروانہ بھی جاری

جماعت اسلامی بنگلہ دیشی مطیع الرحمن نظامی کی موت کا پروانہ بھی جاری

جماعت اسلامی بنگلہ دیشی مطیع الرحمن نظامی کی موت کا پروانہ بھی جاری

ڈھاکہ ۔۔۔ نیوز ٹائم

 پاکستان کو 1971ء میں متحد رکھنے کی کوششیں کرنے والوں کو عدالتوں کے ذریعے قتل کرانے کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ گزشتہ روز بھارت نواز بنگلہ دیشی حسینہ واجد حکومت نے امیر جماعت اسلامی بنگلہ دیش مطیع الرحمن نظامی کو 1971ء کے فسادات میں ملوث قرار دیتے ہوئے نام نہاد وار ٹربیونل سے ان کے عدالتی قتل کا حکم حاصل کر لیا ہے۔ جنوری میں ایک اور عدالت مطیح الرحمان نظامی کو اسلحہ اسمگلنگ کیس میں بھی سزائے موت سنا چکی ہے۔ بنگلہ دیشی وزیر قانون انیس الحق کا کہنا ہے کہ فیصلے پر جلد سے جلد عمل درآمد کیا جائے گا۔ جماعت اسلامی کے وکیل تاج الاسلام کا کہنا ہے کہ ہم فیصلے کے خلاف اپیل دائر کریں گے۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں نام نہاد وار ٹربیونل کو مسترد کر چکی ہیں۔ عدالتی قتل کا فرمان جاری ہونے کے فوری بعد بنگلہ دیش بھر میں احتجاجی مظاہرے شروع ہو گئے ہیں۔ کئی شہروں میں پولیس و مظاہرین کے درمیان جھڑپوں کی اطلاعات بھی ملی ہیں۔ جماعت اسلامی و اتحادیوں نے جمعرات کو بنگلہ دیش بھر میں عام ہڑتال اور اتوار سے 48 گھنٹے تک پہیہ جام کی اپیل کر دی ہے۔ بنگلہ دیشی وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد نے پولیس کو جماعت اسلامی و اتحادی جماعتون کے کارکنوں پر مظاہم ڈھانے کی کھلی چھوٹ دیتے ہوئے مختلف شہروں میں بھاری نفری تعینات کر دی۔ بدھ کو مطیع الرحمن نظامی کے آبائی ضلع سلہٹ میں کئی مقامات پر مظاہرین سڑکوں پر نکل آئے اور انہوں نے 20 سے زائد سرکاری گاڑیاں نذر آتش کر دیں۔ بنگلہ دیشی پولیس نے جماعت اسلامی اور اسلامی چھاترو شبر کے کارکنوں پر فائرنگ اور آنسو گیس کی شدید شیلنگ کی۔ بنگلہ دیشی پولیس کی فائرنگ سے درجنوں افراد شدید زخمی ہو گئے۔ مطیع الرحمان نظامی سے قبل جماعت اسلامی کے رہنما علی احسن محمد مجاہد کو بھی پھانسی کی سزا سنائی جا چکی ہے۔ جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے رہنما عبد القادر ملا تختہ دار پر جام شہادت نوش کر چکے ہیں، جبکہ سابق امیر جماعت اسلامی پروفیسر غلام اعظم 90 برس قید کی سزا کے دوران درجہ شہادت پر فائز ہوئے۔ 71 سالہ مطیع الرحمن نظامی بنگلہ دیش کے سابق وفاقی وزیر اور سابق رکن پارلیمنٹ رہ چکے ہیں۔ ان پر 1971 ء میں نسل کشی، ریپ، لوٹ مار سمیت 16 مقدمات بنائے گئے۔ بدھ کو جب ڈھاکہ کی جنگی جرائم کی 3 ججوں پر مشتمل خصوصی عدالت نے فیصلہ سنایا تو کمرہ کچھا کھچ بھرا ہوا تھا۔ بنگلہ دیشی سرکاری وکیل محمد علی کا دعویٰ ہے کہ وائر کرائم ٹربیونل نے جرائم کی سنگینی دیکھتے ہوئے امیر جماعت اسلامی مطیع الرحمن نظامی کو پھانسی کی سزا سنائی ہے۔ 1971 ء میں مطیع الرحمان جماعت اسلامی کی ایک ذیلی تنظیم سے وابستہ تھے اور ان پر الزام ہے کہ انہوں نے البدر کے کمانڈر کے حیثیت میں پاکستان کو توڑنے کی کوششوں میں مصروف بھارت کی پروردہ مکتی باہنی کے غنڈوں کی پاک فوج کو نشاندہی کی۔ بنگلہ دیشی حکومت کا دعویٰ ہے کہ پاکستان کو توڑنے کی جنگ میں 30 لاکھ افراد مارے گئے تھے۔ بے شمار لوگ اس دعوے کو مبالغہ آمیز سمجھتے ہیں۔ جماعت اسلامی بنگلہ دیش کا کہنا ہے کہ حکومت وار کرائم ٹربیونل کو سیاسی مخالفین کی کمر توڑنے کے لیے استعمال کر رہی ہے۔ اس سے قبل ایک بنگلہ دیشی عدالت انہیں ساحل سے پکڑے گئے اسلحہ کے 10 ٹرکوں کی اسمگلنگ میں ملوث قرار دیتے ہوئے بھی سزائے موت سنا چکی ہے۔ مطیع الرحمان نظامی خالدہ ضیاء دور میں وفاقی وزیر رہے۔ انہیں 2010ء میں گرفتار کیا گیا اور 50 افراد کے ہمراہ اسلحہ اسمگلنگ سمیت دیگر سنگین الزامات میںملوث قرار دیا گیا۔ حکومتی دعوے کے مطابق یہ اسلحہ بھارتی باغیوں کو فراہم کیا جانا تھا۔

No comments.

Leave a Reply