نو فلائی زون کا معاملہ زیر ِغور نہیں: نیٹو

نیٹو کی لینڈ کمانڈ کے نئے سربراہ Lieutenant General John Nicholson

نیٹو کی لینڈ کمانڈ کے نئے سربراہ Lieutenant General John Nicholson

واشنگٹن ۔۔۔ نیوز ٹائم

نیٹو کی لینڈ کمانڈ کے نئے سربراہ Lieutenant General John Nicholson نے کہا ہے کہ ادارہ شمالی شام میں  ”نو فلائی زون ” قائم کرنے پر غور نہیں کر رہا ہے جس بات کا ترکی مطالبہ کرتا رہا ہے۔ ترکی کے خیال میں ایسا کرنے سے اس کی جنوب مشرقی سرحدوں پر سکیورٹی کو درپیش خطرات ٹل جائیں گے اور انسانوں کی یلغار کے نتیجے میں ترکی پر پڑنے والے پناہ گزینوں کے بوجھ کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔ یہ بات نیٹو کے ایک اعلی جنرل نے ترکی کے شہر ازمیر میں رائٹرز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں بتائی۔ ترکی میں نیٹو کی فوج کی دوسری بڑی نفری موجود ہے، اور ترکی ‘لینڈ کمانڈ’ کی میزبانی کے فرائض انجام دیتا ہے؛ جس پر نیٹو کے کام میں بہتری اور اس کے موثر ہونے کا دارومدار ہے، اور اتحاد کی پیدل فوج کی تعیناتی کسی ضرورت کے لمحے میں وقت بچ جاتا ہے۔ حالانکہ ترکی نے باضابطہ طور پر نیٹو سے نو فلائی زون کا مطالبہ نہیں کیا۔ تاہم ترکی نے کئی بار اس بات پر زور دیا ہے کہ اتحاد کے ممالک جنھیں شام میں محفوظ خطے کی تلاش کا معاملہ عزیز ہے چاہیے کہ وہ ایسا اقدام کریں تاکہ   شام سے ترکِ وطن  ترکی میں داخل ہونے والے 16 لاکھ  مہاجرین کا تبادلہ ممکن ہو۔ Lieutenant General John Nicholson کے مطابق نو فلائی زون پر انتہائی زیادہ رقوم خرچ آئیں گی۔ یہ ایسا معاملہ نہیں ہے جس پر ہم فوری طور پر  دھیان دیں۔ نیٹو ‘لینڈ کمانڈ’ کا دفتر ازمیر کے ساحلی شہر میں واقع ہے۔ ‘محفوظ زون’ سے متعلق ترکی کی درخواست جس میں فضائی دفاع ایک اہم عنصر ہے متعدد اتحادیوں کی نظر میں زیادہ اہمیت کا حامل نہیں ہے۔ فرانس کے وزیر خارجہ Laurent Fabius نے رواں ہفتے اس تجویز کی حمایت کی تھی۔  لیکن ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ اِس ضمن میں ہمیں کئی افراد کو قائل کرنا ہو گا۔ فوجی ماہرین کی رائے میں ایسے اقدام کے لیے ضروری ہے کہ یا تو حکومت شام  کے ساتھ کوئی معاہدہ طے ہو یا پھر شام کے فضائی دفاع کے جدید نظام کو ناکارہ بنا دیا جائے۔ ایسے عمل کی راہ میں یہ خطرہ لاحق ہے کہ مغربی ملک تین برس سے جاری شام کی لڑائی میں فریق بن جائیں گے جس کا مطلب صدر بشار الاسد کے اتحادی روس اور ایران کو مشتعل کرنا ہو گا۔ دراصل نو فلائی زون کی تجویز پر یک رائے نہ ہونا اس بات کی بھی غمازی کرتا ہے کہ مشرق وسطی میں جاری کشیدگی کے ماحول سے نمٹنے کے سلسلے میں ترکی اور اس کے مغربی اتحادیوں کے درمیان خیالات میں وسیع تر خلا اور نااتفاقی موجود ہے۔ ترکی اس بات کا خواہاں ہے کہ اس کے دشمن اسد کو اقتدار سے ہٹایا جائے اور دولت اسلامیہ کے اِس سخت گیر سنی گروہ پر دھیان مرکوز کرنا مرض کے علاج کی جگہ علامات سے الجھا رہنے کے مترادف ہے۔  یعنی شام میں حکمرانی کی خلا کی کیفیت میں جاری لاقانونیت اور مظالم کو برداشت کیا جاتا رہے۔ امریکی نائب صدر Joe Biden کے حالیہ دورہ ترکی کے دوران دونوں فریق اپنے اپنے مخصوص موقف پر ڈٹے رہے جبکہ دونوں کی پالیسیوں میں کوئی واضح تبدیلی نظر نہیں آئی۔

No comments.

Leave a Reply