مصر میں مظاہروں کا تسلسل سے جاری، ایک طالب علم ہلاک،21 زخمی

مصر میں مظاہروں کا تسلسل سے جاری

مصر میں مظاہروں کا تسلسل سے جاری

قاہرہ ۔۔۔ نیوز ٹائم

قاہرہ میں طلبہ کے حکومت مخالف احتجاجی مظاہرے کے دوران جھڑپوں میں ایک طالب علم ہلاک اور اکیس زخمی ہوگئے ہیں۔

وزارت صحت کے ایک عہدے دار احمد الانصاری نے بتایا ہے کہ مقتول طالب علم کا نام محمد رضا محمد عبدو تھا اور اس کی عمر انیس برس تھی۔ وہ جامعہ قاہرہ میں انجنئیرنگ کا دوسرے سال کا طالب علم تھا۔ فوری طور پر اس کی ہلاکت کی وجہ معلوم نہیں ہوسکی کہ آیا وہ سکیورٹی اہلکاروں کی گولی لگنے سے ہلاک ہوا ہے یا تشدد سے جان کی بازی ہار گیا ہے۔ جامعہ قاہرہ کے باہر طلبہ نے یہ مظاہرہ اسکندریہ میں اخوان المسلمون سے تعلق رکھنے والی اکیس خواتین کو گیارہ سال تک قید کی سزائیں سنائے جانے کے ایک روز بعد کیا ہے۔ اسکندریہ کی عدالت نے چودہ خواتین کو برطرف صدر ڈاکٹر محمد مرسی کی حمایت میں مظاہرے میں حصہ لینے کی پاداش میں گیارہ سال کے لیے جیل بھیج دیا ہے جبکہ اٹھارہ سال سے کم عمر سات لڑکیوں کو بچوں کی جیل میں بھیجنے کا حکم دیا ہے۔ ڈاکٹر محمد مرسی کے حامی 3 جولائی کو ان کی برطرفی کے بعد سے مسلح افواج کے اقدام کے خلاف احتجاجی مظاہرے کررہے ہیں۔گذشتہ چند ہفتوں سے ان کے احتجاج کا مرکز و محور جامعات بن چکی ہیں اور ہر دوسرے چوتھے روز طلبہ وطالبات منتخب جمہوری صدر کی برطرفی کے خلاف احتجاجی مظاہرے کرتے ہیں۔ مصر کے عبوری صدر عدلی منصور نے ملک میں عبوری حکومت اور فوج کے خلاف جاری ان مظاہروں کو محدود کرنے اور پابند بنانے کے لیے گذشتہ اتوار کوایک متنازعہ قانون کی منظوری دی تھی۔ اس کے تحت مظاہرین کو عوامی مقامات پر اجتماعات منعقد کرنے سے قبل پیشگی اجازت لینا ہوگی۔ اس قانون کے نفاذ کے بعد مصری فورسز نے منگل اور بدھ کو اسلام پسندوں اور سیکولر تنظیموں کے دو الگ الگ مظاہروں کو بزور منتشر کردیا تھا۔ سکیورٹی اہلکاروں نے مظاہروں میں حصہ لینے والے متعدد افراد کو گرفتار کر لیا تھا۔ ان میں شہریوں پرفوجی عدالتوں میں مقدمات چلانے کے خلاف مہم کی بانی مونا سیف اور سابق صدر حسنی مبارک کے خلاف عوامی احتجاجی تحریک کے دوران دونوں آنکھوں سے محروم ہوجانے والے ڈینٹیسٹ احمد حرارہ بھی شامل ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس قانون کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ اس سے شہریوں کا اجتماع اور پرامن احتجاج کا حق سلب ہو کررہ گیا ہے۔انھوں نے اس متنازعہ قانون کی تنسیخ تک اس کے خلاف احتجاج جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے مظاہروں پر قابو پانے کے لیے مصر میں نافذ کردہ نئے قانون پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے شہریوں کے اجتماع کی آزادی خطرے سے دوچار ہوگئی ہے اور سکیورٹی فورسز کو مظاہرین کے خلاف طاقت کے بے بہابا استعمال کا حق حاصل ہوگیا ہے۔ اخوان المسلمون کے سیاسی چہرہ حریت اور عدل پارٹی نے بھی متنازعہ قانون کی مذمت کی ہے۔

No comments.

Leave a Reply