ملک میں ایک ہی کِم جونگ ان رہ سکتا ہے

ملک میں ایک ہی کِم جونگ ان رہ سکتا ہے

ملک میں ایک ہی کِم جونگ ان رہ سکتا ہے

پیانگ یانگ ۔۔۔ نیوز ٹائم

شمالی کوریا کے عوام کو پابند کر دیا گیا ہے کہ وہ اپنے بچوںکے نام ملک کے حاکم کم جونگ ان کے نام پر نہیں رکھ سکتے، اور جو لوگ اس نام کے حامل ہیں انھیں اپنا نام تبدیل کرنا ہو گا یہ انوکھی ہدایت 2011 ء میں جاری کی گئی تھی مگر اس کی تفصیلات اب سامنے آئی ہیں۔ شمالی کوریا کو اگر بند ملک کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا، کیونکہ اس سرزمین کی خبریں بیرونی دنیا تک کم  ہی پہنچ پاتی ہیں۔ کہنے کو تو شمالی کوریا عوامی جمہوریہ ہے مگر عملاً وہاں ایسا انداز حکمرانی رائج ہے جو آمرانہ طرز حکومت کی اصطلاح پر پورا اترتا ہے۔ شمالی کوریا میں موروثی حکومت چلی آ رہی ہے۔ کم جونگ ان سے پہلے زمام اقتدار ان کے والد کم جونگ ال کے ہاتھ میں تھی۔ ان سے پہلے کم جونگ ان کے دادا کم ال سنگ 1948 ء سے 1994 ء تک وزیر اعظم و صدر رہے تھے۔ اقتدار پر گرفت مضبوط رکھنے کے لیے شمالی کوریا کے حکمران مختلف اقدامات کرتے رہتے ہیں۔ ملک کو ایک  بند ملک میں بدل دینا بھی اسی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ تاہم دسمبر 2011ء  میں مسند اقتدار پر براجمان ہونے کے بعد کم جونگ ان نے کچھ ایسے اقدامات بھی کیے ہیں جنھیں بیرونی دنیا نے تمسخرانہ انداز میں دیکھا۔ مثلًا پہلے یونیورسٹی کے طلبا پر اپنے حکمران کے ہیئر اسٹائل کی نقل کرنا لازم قرار دیا گیا۔ پھر کم جونگ ان کے حالات زندگی کے مطالعے کو مضمون کی شکل دے کر تدریسی نصاب کا حصہ بنا دیا گیا۔ اور اب عوام سے کہا گیا ہے کہ شمالی کوریا میں ایک ہی کم جونگ ان رہ سکتا ہے، چناچہ بقیہ کم جونگ ان اپنا نام بدل ڈالیں، اور والدین نومولود بچوں کے لیے کسی اور نام کا انتخاب کریں۔ دراصل یہ حکم 2011 میں جاری کیا گیا تھا تاہم اس کی خفیہ دستاویز حال ہی میں سرکاری ٹیلی ویژن پر دکھائی گئی۔ حکمران ورکرز پارٹی آف کوریا کے تمام شعبوں سے متعلق افراد سرکاری عہدے داروں، فوج اور پولیس کو ہدایت کی گئی تھی کہ وہ اس حکم نامے پر عمل درآمد یقینی بنائیں۔ ان تمام اداروں سے یہ بھی کہا گیا تھا کہ جن شہریوں کے نام کم جونگ ان ہیں، وہ بدل دیے جائیں اور انھیں تعلیمی اسناد، قومی شناختی کارڈ، پاسپورٹ سمیت تمام دستاویزات نئے نام سے جاری کی جائیں۔ سرکاری عہدے داروں کو یہ حکم بھی دیا گیا تھا کہ ان بچوں کے پیدائشی سرٹیفکیٹ مسترد کر دیے جائیں جن کا نام کم جونگ ان ہو۔

No comments.

Leave a Reply