اسپین نے مسلمانوں کو شہریت دینے کیلئے عیسائیت قبول کرنے کی شرط لگا دی

مسلمانوں کو شہریت دینے کیلئے عیسائیت قبول کرنے کی شرط

مسلمانوں کو شہریت دینے کیلئے عیسائیت قبول کرنے کی شرط

بارسلونا ۔۔۔ نیوز ٹائم

اسپین کی حکومت نے مسلمان تاریکن وطن کیلئے اسپین کی شہریت کو عیسائیت قبول کرنے سے مشروط کر دیا ہے۔ یہ فیصلہ مذہبی انتہا پسندوں کے دبائو پر اسپینش کیتھولک چرچ اور حکومت کے درمیان ہونے والے ایک معاہدے کے نتیجے میں کیا گیا ہے، جس کے بعد شہریت کے لئے درخواست دینے والے مسلمان تاریکن وطن کے لئے امیگریشن اتھارٹی کی جانب سے مذہب کی تبدیلی کے مخصوص فارم بنائے گئے ہیں۔ ان فارمز کو پُر کرنا شہریت کے خواہش مند افراد کے لئے لازمی ہوگا۔ اسپین میں شام، مراکش، الجزائر، لبنان، فلسطین، عراق اور افغانستان کے شہریوں کے ساتھ پاکستان کے بھی ایک لاکھ سے زائد تارکین وطن موجود ہیں۔ اسپین کے کیتھولک چرچ نے مسلمانوں کر مرتد کرنے کی غرض سے حکومت کو ایسا کرنے پر اکسایا ہے۔ اس سے قبل مسلمان تاریکن وطن خصوصاً عربوں کو عیسائی تنظیموں کی جانب سے پُرکشش پیشکشیں کی جاتی رہی ہیں لیکن اب تک کوئی مسلمان مرتد نہیں ہوا۔ ایک ہفتے کے دوران دو ہزار سے زائد مسلمان تاریکن وطن اسپین چھوڑ کر جاچکے ہیں۔ الجزائر سے شائع ہونے والے عربی جریدے ”الشروق” نے اس حوالے  سے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ یورپی ملک اسپین کے امیگریشن حکام نے اعلان کیا ہے کہ جو مسلمان تارکین وطن کیتھولک عیسائی مذہب اختیار کریں گے، صرف انہیں ہی اسپین کی شہریت دی جائے گی۔ رپورٹ کے مطابق یہ اعلان اس معاہدے کے بعد کیا گیا ہے جو اسپین  کے صدر ماریونو راخوائی اور کیتھولک چرچ کونسل کی سربراہ مایا انتونی کے درمیان ہوا۔ اس فیصلے کو اسپین کی اپوزیشن جماعت کی بھی حمایت حاصل ہے۔ رپورٹ کے مطابق اسپین کے وزیر قانون البرٹو اور کیتھولک چرچ کونسل کے ایک پریس کانفرنس میں مسلمان تارکین وطن کو مخاطب کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ ان کا ملک صرف ان مسلمان تارکین وطن کو شہریت دے گا جو اپنے مذہب کو چھوڑ کر عیسائیت قبول کرنے کے لئے تیار ہوں۔ ایسے افرارد کو دیگر بہت سی سہولیات بھی دی جائیں گی، جو اس سے قبل شہریت حاصل کرنے والے تاریکن وطن کو میسر نہیں ہوئی تھیں۔ رپورٹ کے مطابق حکومت نے تارکین وطن میں سے صرف مسلمانوں کو مخصوص کیا ہے۔ نئے امیگریشن فارم میں بھی وضاحت کی گئی ہے کہ فارم بھرنے والا مسلمان شخص نئے مذہب کے طور پر صرف عیسائیوں کے کیتھولک فرقے کا انتخاب کرے گا۔ الشروق کی رپورٹ کے مطابق نیشنلٹی دینے سے قبل ”مرتد” ہونے والا شخص کا پورا ریکارڈ چیک کیا جائے گا کہ وہ کہیں غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث تو نہیں رہا۔ کسی مقدمے میں سزا یافتہ یا پولیس کو مطلوب تو نہیں ہے۔ اس کے علاوہ ایسے افراد کو بھی نیشنلٹی نہ دینے کا اعلان کیا گیا ہے، جو کسی سرکاری یا غیر سرکاری ادارے کے چھ لاکھ یورو تک کے مقروض ہوں۔ الشروق کے مطابق عیسائی تنظیموں نے اس کا یہ حل نکالا ہے کہ وہ ایسے تعلیم یافتہ اور ہنر مند مسلمانوں کو تلاش کر رہی ہیں جو مقروض ہیں، ان افراد کے ذمہ واجب الادا قرض ادا کر کے انہیں اسلام ترک کرنے کی ترغیب دی جارہی ہے۔ اسپینش حکومت نے کہا ہے کہ چھ لاکھ یورو سے کم رقم کے مقروض افراد کو بغیر کسی رکاوٹ کے شہریت دی جا سکتی ہے، ان کے قرضوں کی ادائیگی چرچ کے فنڈ سے ہوگی۔ الشروق کے مطابق اسپینش حکومت کے اس فیصلے پر اسپین کی اسلامی تنظیموں اور تاریکین وطن کے حقوق کے لئے کام کرنے والی تنظیموں کی جانب سے سخت تنقید کی جا رہی ہے اور اسے تارکین وطن کی مجبوری سے ناجائز فائدہ اٹھانے کی کوشش قرار دیا جا رہا ہے۔ جبکہ یہ عمل بین المذاہب قوانین کے احترام کے بھی منافی ہے۔ اسپین کے شہر بارسلونا میں اسلامک آرگنائزیشن کی رہنما منیہ بلماحی نے اس فیصلے پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسپینش حکومت دیگر یورپی ملکوں کے مقابلے میں اسلام کے حوالے سے سخت متعصب واقع ہوئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس فیصلے میں بھی عیسائیوں کا تعصب چھپا نہیں رہ سکا ہے۔ کیونکہ مرتد ہونے والے افراد کو شہریت حاصل کرنے کے بعد ماہانہ 60 یورو بطور ”جزیہ” دینا ہوں گئے جو اس بات کا ثبوت ہو گا کہ وہ دوسرے نمبر کا شہری ہے اور خاندانی عیسائی نہیں ہے۔ اس ٹیکس یا جزیہ میں سے پانچ یورو حکومتی خزانے میں اور 55 یورو اسپین کے چرچ کے فنڈ میں  جائیں گے۔ رپورٹ کے مطابق اس سے قبل 1988ء میں اسپینش حکومت نے یہودیوں کو بھی شہریت کے لیے ایسی ہی پیشکش کی تھی، جس سے 120 یہودیوں نے استفادہ کیا تھا۔ تاہم اسپین کی اسلامک تنظمیوں نے اس اعلان کے بعد اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب تک کوئی مسلمان مرتد ہونے کے لئے تیار نہیں ہوا ہے۔ اسپین کے شہر اشبیلیہ میں قائم تارکین وطن کے حقوق کے لئے کام کرنے والی فائونڈیشن نے اس فیصلے کی مذمت کی ہے اور اسے دین کی تجارت قرار دیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق اسپین کی متعدد اسلامی اور تارکین وطن کے لئے کام کرنے والی تنظیموں کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے شہریت کے لیے عائد کی جانے والی شرط کا مقصد تارکین وطن کو ملک سے نکالنا ہے۔ کیونکہ گزشتہ دو سال سے ملک میں شدید بے روزگاری پھیلی ہوئی ہے۔ جبکہ اسپین غیر ملکی تارکین وطن کی بہت بڑی تعداد آباد ہے جن میں اکثریت عرب ممالک کے علاوہ مراکش، پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، سری لنکا، رومانیہ اور مختلف روسی ریاستوں کے باشندوں کی ہے جو 90 فیصد مسلمان ہیں۔ مراکش کے تارکین وطن کے لئے کام کرنے والی تنظیم کے مطابق عیسائی مشنری ادارے کافی عرصے سے مسلمانوں کو مرتد کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں خصوصاً ان کی نظر مراکش اور دیگر عرب ممالک کے تارکین وطن پر مرکوز ہے۔ کیتھولک چرچ کے نمائندے وفود کی شکل میں مراکش، الجزائر، شام، لبنان اور تیونس کے مسلمانوں کے پاس جاتے ہیں۔ آج کل وہ مسلمانوں کو حکومت کے اس پیکیج سے استفادہ کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بہت سے مشنری ادارے مسلمانوں کو شہریت کے حصول کے پروسیس میںتعاون کی یقین دہانی کے علاوہ غیر شادی شدہ افراد کو گرجا گھروں کے زیر انتظام پر تعیش رہائش گاہوں میں اقامد دلوانے اور مالی تعاون کا لالچ بھی دیا جارہا ہے۔ اسلامی تنظیموں نے متمول مسلمانوں سے اپنے مجبور بھائیوں کی مدد اور انہیں مرتد ہونے سے بچانے کے لئے فنڈز جمع کرنے کی بھی اپیل کی ہے جس میں بہت سے اہل خیر حصہ لے رہے ہیں تاکہ بیروزگار افراد کی مدد کی جا سکے۔ الشروق کی رپورٹ کے مطابق بہت سے تارکین وطن مجبوریوں کے باوجود اسپین کی شہریت کو ٹھکرا کر وہاں سے نکل جانے کو ترجیح دے رہے ہیں اور رواں ہفتے دو ہزار سے زائد تارکین وطن دیگر یورپی ملکوں کا رخ  کر چکے ہیں۔ نیشنل اسٹیٹکس انسٹیٹیوٹ کے مطابق 2012-13ء میں اسپین میں بیروزگاروں کی تعداد 57 لاکھ 78 ہزار تک پہنچ گئی ہے۔ جن میں بڑی تعداد تارکین وطن کی ہے۔ 34 فیصد کی شرح کے حساب سے اسپین میں بیروزگار تارکین وطن کی مجموعی تعداد 11 لاکھ 82 ہزار ہو گئی ہے، جس کی وجہ سے پاکستان، بھارت اور دیگر ملکوں کے باشندے اپنے ملکوں کو واپس جا رہے ہیں یا پھر یورپ کے ان ملکوں کا رخ کر رہے ہیں جہاں معاشی بدحالی کم ہے۔ میڈیا کے مطابق اسپین میں تارکین وطن کی زیادہ تعداد بارسلونا میں مقیم ہے۔ پاکستانی کمیونٹی کے ساٹھ سے ستر  ہزار افراد  بھی بارسلونا میں اپنی فیملیوں کے ساتھ رہائش پذیر ہیں۔ رپورٹ کے مطابق اسپین میں تارکین وطن کی تنخواہ سے ہر ماہ کچھ ٹیکس کاٹا جاتاہے اور بیروزگاری کی صورت میں وہی ٹیکس مدد کے طور پر واپس کر دیا جا تا ہے۔ جسے ”پارو” کہا جاتا ہے۔ لیکن مسلمانوں پر شہریت کے لئے مرتد ہونے کی شرط عائد کرنے سے قبل اس امداد کو کم کر دیا گیا ہے، اس کے علاوہ بچوں کو ملنے والا الائونس بھی ختم کر دیا گیا ہے۔ اسپین میں مقیم افراد کو بچے کی پیدائش پر 25 سو یورو کی امدادی رقم دی جاتی تھی، جسے ختم کر دیا گیا ہے۔ ان ہتھکنڈوں سے مسلمان تارکین وطن بری طرح متاثر ہوئے ہیں، ان کی مجبوری سے عیسائی مشنری فائدہ اٹھانا چاہتی ہے۔

No comments.

Leave a Reply