مسئلہ کشمیر: بھارت کو امریکہ نے مذاکرات پر آمادہ کیا

پاک بھارت مذاکرت کی بحالی کے لیے امریکی کوششیں جنوری سے جاری تھیں

پاک بھارت مذاکرت کی بحالی کے لیے امریکی کوششیں جنوری سے جاری تھیں

کراچی ۔۔۔ نیوز ٹائم

بھارت کو مسئلہ کشمیر پر مذاکرات کے لیے امریکہ نے آمادہ کیا۔ مقصد پاکستان کو بھارتی دہشت گردی کے ثبوت عام کرنے سے روکنا ہے۔ دوسری جانب حکومت پاکستان بھی بھارت کے سیکرٹری خارجہ کے دورہ پاکستان کو مذاکرات کی بحالی قرار دینے سے گریزاں ہے۔ ادھر مقبوضہ کشمیر میں آل پارٹیز حریت کانفرنس کے دونوں دھڑوں کے مطابق انہیں پاک بھارت مذاکرات کے لیے اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ موصولہ اطلاعات کے مطابق پاک بھارت مذاکرت کی بحالی کے لیے امریکی کوششیں جنوری سے جاری تھیں۔ جبکہ پاکستان کی جانب سے بھی امریکہ کے ساتھ تعاون کے سلسلے میں رکھی گئی شرائط میں سے ایک شرط یہ تھی کہ امریکہ، مسئلہ کشمیر میں اپنا کردار ادا کرے اور بھارت کو بات چیت پر آمادہ کرے۔ ذرائع کے مطابق امریکیوں نے پاکستان کو بتایا تھا کہ ان کا بھارت کے ساتھ اس سلسلے میں رابطہ ہے، مگر نریندر مودی کا خیال تھا کہ اگر پاک بھارت مذاکرات شروع ہو گئے تو اس سے مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کے دلوں میں بھارت کے خلاف نفرت بڑھ سکتی ہے۔ لہذا نریندر مودی نے جون 2014ء میں سیکرٹری خارجہ سطح کے مذاکرات یہ کہہ کر مسترد کر دیئے تھے کہ پاکستان نے کشمیریوں سے مشاورت کیوں کی۔ وہ کشمیر میں اپنا خصوصی پلان مکمل کئے بغیر بات چیت پر آمادہ نہیں تھے۔ اب جبکہ مقبوضہ کشمیر میں مفتی سعید کی جماعت کے ساتھ ان کا اتحاد ہو چکا ہے، لہذا اب وہ مقبوضہ کشمیر سے متعلق بات کرنے کی حد تک آمادہ ہو چکے ہیں۔ مگر ان کے ساتھ مذاکرات کو بہت پیچھے سے شروع کرنا پڑے گا، کیونکہ وہ مقبوضة کشمیر کو متازعہ تسلیم ہی نہیں کرتے۔ حل کا معاملہ تو دور کی بات ہے۔ اطلاعات کے مطابق جنوری میں ہی امریکہ نے فریقین پر بات چیت کے لیے دبائو ڈالنا شروع کر دیا تھا۔ اب بھارت نے اندرونی دبائو ختم ہوتے ہی سیکرٹری خارجہ کو پاکستان بھیجنے کا اعلان کر دیا ہے۔ دریں اثنا معلوم ہوا ہے کہ اس سے قبل امریکی صدر کے دورہ بھارت کے بعد پاکستان سے آئی ایس آئی کے ایک سابق سربراہ جنرل اسد درانی نے بھی بھارت کا مختصر دورہ کیا ہے۔ وہاں انہوں نے اپنے دوستوں خصوصاً حکومت کے بعض ذمہ داران سے بھی ملاقاتیں کی ہیں اور ان ملاقاتوں میں پاک بھارت تعلقات، خصوصاً کشمیر کا مسئلہ ہی زیر بحث آیا۔ مگر یہ مذاکرات نہں تھے، جنرل درانی کے ساتھ ساتھ حکومت بھی اس دورے کو مذاکرات سے الگ دیکھنے پر بضد ہے اور حکومت کا دعویٰ ہے کہ جنرل درانی نجی دورے پر تھے۔ تاہم دفتر خارجہ کے ایک ذریعے نے انکشاف کیا ہے کہ اسے مذاکرات تو نہیں کہا جا سکتا البتہ جنرل درانی نے پیغام رسائی میں کردار ادا کیا ہے اور انہیں امریکی صدر کے دورہ بھارت کے بعد ایسا کرنے کو کہا گیا تھا۔ انہی ذرائع کا دعویٰ ہے کہ سفارتی حلقوں  میں بھارتی حکومت کا سیکرٹری خارجہ کو پاکستان بھیجنے کا اعلان غیر متوقع نہیں تھا، مگر جس قدر عجلت میں انہوں نے اعلان کیا، اس کی بھی توقع نہیں تھی۔ اس ذریعے کا دعویٰ ہے کہ اصل میں بھارتی حکومت کشمیر کو متازع ماننے کو ہی تیار نہیں ہے۔ اس لیے حکومت پاکستان نے اپنے ذرائع کے زریعے سے بتایا ہے کہ وہ اس مذاکراتی پیشکش کو مذاکرات قرار نہیں دے سکتی۔ کیونکہ پاکستان اب مذاکرات کا کھیل جاری رکھنے کا متحمل نہیں ہے۔ یہ بات چیت ضرور ہو گی، مگر اس میں ابتدا کشمیر سے ہو گی۔ جبکہ بھارت کو ترجحیات یہ ہیں کہ کشمیر پر بات چیت ملاقات کے آخری حصے میں ہو گی۔ اس سے قبل ان معاملات کی مذاکرات بھارت کو ترجیح ہے جن کا کوئی حل نکل سکتا ہے۔ مگر پاکستاب نے بھی تیاری کر لی ہے کہ کشمیر کے سوا کسی موضوع پر بات چیت نہیں ہو گی۔ ذرائع کے مطابق پاکستان کے دفتر خارجہ میں اس حوالے سے تیاری کی جا رہی ہے اور توقع ہے کہ بھارتی سیکرٹری خارجہ کی آمد پر ہی آئندہ بات چیت شروع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ہو گا۔ تاہم اس کے باوجود بھارتی سیکرٹری خارجہ کا دورہ ایک اہم پیشرفت ہے۔ ادھر مقبوضہ کشمیر سے ایک ذریعے کا دعویٰ ہے کہ بھارت کی پہلی سیکرٹری خارجہ نریندر مودی کے اعتماد میں نہیں تھیں۔ دوسرے یہ کہ سیکرٹری خارجہ اور حکومت کے درمیان اہم آہنگی کا فقدان تھا۔ جبکہ بے جے پی بھی بات چیت کرنے پر آمادہ دکھائی نہیں دے رہی تھی۔ تیسرا مقصد یہ تھا کہ نریندر مودی کشمیر میں ہندو حکومت بنوانے سے قبل پاکستان سے نفرت کا بھر پور اظہار کرنا چاہتے تھے تاکہ الیکشن جیت سکیں۔ تاہم ان تمام وجوہات سے بڑھ کر امریکی دبائو تھا کہ اگر بھارت مذاکرات بحال نہیں کرتا تو امریکہ پاکستان کو بھارتی سازشیں بے نقاب کرنے سے نہیں روک پائے گا۔ بتایا جاتا ہے کہ پاکستان کے آرمی چیف نے اپنے دو ہفتے کے دورے میں امریکیوں کو بھارتی دہشت گردی کے تمام ثبوت مہیا کر دیئے تھے، لہذا اب بات چیت کی بحالی امریکی دبائو پر ہو رہی ہے۔ دریں اثنا رابطے کی کوشش کے باوجود سید علی گیلانی اور میر واعظ عمر فاروق سے بات نہیں ہو سکی۔ البتہ حریت کانفرنس کے ذرائع نے بتایا کہ کشمیری قیادت کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ میر واعظ کہنا ہے کہ پاکستان اور بھارت میں سے کسی ایک نے بھی انہیں اعتماد میں لینے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔

No comments.

Leave a Reply