حکومت اور تحریک انصاف جوڈیشل کمیشن کے قیام پر متفق

تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر ترین اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار  کے درمیان عدالتی کمیشن کے قیام پر اتفاق ہو گیا

تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر ترین اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے درمیان عدالتی کمیشن کے قیام پر اتفاق ہو گیا

اسلام آباد ۔۔۔ نیوز ٹائم

حکومت اورپاکستان تحریک انصاف کے درمیان عام انتخابات 2013ء میں مبینہ دھاندلی کے الزامات کی تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن کے قیام پر اتفاق ہو گیا اور اس کے اختیارات کے حوالے سے چار نکات پر معاہدہ طے پا گیا جس کے تحت جوڈیشل کمیشن انکوائری کر کے اس بات کا تعین کرے گا کہ 2013ء کے انتخابات شفاف، غیر جانبدارانہ، ایماندارانہ، منصفانہ اور قانون کے مطابق کرائے گئے یا نہیں، آئین کی شق نمبر 3/218 کے تحت جوڈیشل کمیشن جائزہ لے گا کہ 2013ء کے انتخابات دھاندلی زدہ تھے یا منظم طریقے سے ان کے نتائج پر اثر اندا ہوا، 2013ء کے انتخابات کا نتیجہ عوامی مینڈیٹ کے مطابق تھا یا نہیںِ، جوڈیشل کمشین انکوائری کے لیے جے آئی ٹی اور ایس آئی ٹی سے بھی مدد لے سکے گا، مسودے کی حتمی منظوری وزیر اعظم نواز شریف اور چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان دیں گے، آئندہ ہفتے تک تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لے کر صدارتی آرڈیننس لایا جائے گا، 2013ء کے انتخابات جاری رہیں گے، جوڈیشل کمیشن جانچ پڑتال کے لیے کوئی بھی مواد حاصل کر سکتا ہے، تحقیقات کے بعد کمیشن جو بھی فیصلہ کرے گا اس کو دونوں جماعتیں تسلیم کریں گی۔ جمعہ کو پنجاب ہائوس اسلام آباد میں حتمی مذاکرات کے بعد تحریک انصاف کی ٹیم کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ تحریک انصاف کے رہنمائوں کے ساتھ کئی ملاقاتیں ہوئیں لیکن پتہ کسی کو نہیں چلنے دیا گیا۔ تحریک انصاف نے بہت لچک کا مظاہرہ کیا ہے، تحریک انصاف نہ صرف 22ویں آئینی ترمیم کا حصہ تھی بلکہ دیگر مواقع پر بھی اس نے ہمارا ساتھ دیا، ہمارے نکات انہوں نے مانے اور ان کے نکات ہم نے مانے ہیں۔ ہم نے دیگر جماعتوں سے بھی وقتاً فوقتاً مشاورت کی ہے اور اس حوالے سے جرگے کے ممبران کے بھی بے حد مشکور ہیں کہ انہوں نے بھی بہت مخلصانہ کوششیں کی ہیں۔ 16 دسمبر کے بعد نواز شریف اور عمران خان کے درمیان کئی ملاقاتیں ہوئیں۔ اس وقت پاکستان کو کئی ایک چیلنجز درپیش ہیں سیاست میں کوئی بھی چیز حرف آخر نہیں۔ حکومت چاہتی ہے چارٹر آف ڈیمو کریسی کی طرح چارٹر آف اکنامکس بھی تمام جماعتوں کی باہمی رضامندی سے طے ہو۔ اس موقع پر شاہ محمود قریشی نے مختلف سوالات کے جوابات دیتے ہوئے کہا کہ 2013ء کے انتخابات پونے دو سال سے زیر بحث تھے اور دونوں جماعتوں کے کئی نکات پر اختلافات تھا تاہم آئین نے ہمیں جو راستہ دکھایا ہے اس کو بنیاد بناتے ہوے ہم اہم نکات پر متفق ہو گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 70ء کے بعد ہر الیکشن پر سوالیہ نشان لگتے رہے ہیں اور ہم ایک ایسا خودمختار اور آزاد الیکشن کمیشن تشکیل دینا چاہتے تھے جس پر سب کو اعتماد ہو اور وسیع تر مفاد یہ ہے کہ عوام کے ووٹ کے حقوق پامال نہ ہوں۔ ہم نے 126 دن کے دھرنے میں کوئی نقطہ پیدا نہیں کیا بلکہ قوم کو بیدار کیا اور یہ کہ جوڈیشل کمشین کا مطالبہ نہ صرف ہمارا بلکہ دیگر جماعتوں کا بھی تھا اور اب ہمارے درمیان طے پا گیا ہے کہ جوڈیشل کمشین مقرر ہو جائے گا۔ تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر ترین نے کہا کہ ٹرمز آف ریفرنس (ٹی اور آر) ہمارا سب سے بڑا مسئلہ تھا اور ہم نے آئین کی شق 218/3 سے روشنی لی ہے اور ان تینوں پوائنٹس کو دیکھ کر انتخابی اصلاحات کی جائیں گی۔ انہوں نے کہا اگلے ہفتے تک تمام جماعتوں کو اعتماد میں لے کر صدارتی آرڈیننس لایا جائے گا۔ جہانگیر ترین نے اس موقع پر طے پانے والے نکات پڑھ کر سنائے جن کے مطابق کمیشن یہ طے کریں گا کہ 2013ء کے انتخابات غیر جانبداری، ایمانداری، شفاف اور قانون کے مطابق منعقد کئے گئے تھے۔ 2013ء کا الیکشن نہ تو چرایا گیا اور نہ ہی کسی نے منظم انداز سے اثر انداز ہونے اور ترتیب دینے کی کوشش کی۔ 2013ء کے انتخابات مکمل طور پر درست اور رائے دہندگان کی  رائے کی عکاسی کرتے ہیں، مسودے میں کمشین کے اختیار کے حوالے سے کہا گیا کہ آئین کے مطابق کمشین کوئی بھی کاغذات، مواد اور 2013ء کے انتخابات سے متلعقہ شواہد کی جانچ پڑتال کر سکتا ہے۔ لاگو ہونے والے آردیننس کے سب سیکشن دو کے مطابق آردیننس کا اطلاق وہاں نہیں ہو گا جہاں دوسرے قوانین اس کے متصادم آتے ہوں گے۔ ان قوانین کا اطلاق اس آرڈیننس میں بھی جاری رہے گا جس کے تحت 2013ء کے انتخابات ہوئے اور الیکشن 2013ء کا انعقاد جاری رہے گا۔ مشترکہ پریس کانفرنس میں مسلم لیگ ن کے رہنما اسحاق ڈار، انوشہ رحمن، بیرسٹر ظفر اللہ اور تحریک انصاف کے رہنما اسد عمر بھی شامل تھے۔

No comments.

Leave a Reply