عراق میں فوجی اثاثے، جائزہ لینے کا وقت آ گیا: اوباما

امریکی صدر باراک اوباما اور نیٹو کے سیکرٹری جنرل Jens Stoltenberg

امریکی صدر باراک اوباما اور نیٹو کے سیکرٹری جنرل Jens Stoltenberg

واشنگٹن ۔۔۔ نیوز ٹائم

صدر براک اوباما نے کہا ہے کہ عراق میں دولت اسلامیہ کے انتہا پسندوں سے موثر طور پر نمٹنے کے لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ امریکہ اور نیٹو کے اتحادی اس بات کو زیر غور لائیں کہ فوجی اثاثے کس طرح استعمال کیے جا رہے ہیں۔ اِس سے چند ہی گھنٹے قبل عراق نے اعلان کیا کہ رمادی کے صوبائی دارالحکومت کا قبضہ چھڑانے کے لیے کارروائی کا اعلان کیا۔ دورے پر آئے ہوئے نیٹو کے سیکرٹری جنرل Jens Stoltenberg  کے ساتھ اجلاس کے اختتام پر گفتگو کرئے ہوئے اوباما نے کہا کہ عراق اور شام میں دولت اسلامیہ کے گروپ کی جانب سے درپیش چیلنج، اور لیبیا کے تنازع نے اتحاد کو مجبور کیا ہے کہ اپنے مشن پر جنوب کے ساتھ ساتھ مشرق کی جانب بھی نگاہ لگائے رکھے۔ صدر اوباما نے کہا کہ نیٹو لازمی طور پر ان تمام عالمی چیلنجوں پر نظر رکھے ہوئے ہے، خصوصی طور پر وہ جنھیں ہم جنوبی محاذ کا نام دیتے ہیں۔ جس ضمن میں ہمیں دولت اسلامیہ کے خلاف لڑائی میں رابطوں کو موثر بنانے کی ضرورت ہے۔ اس کا مطلب یہ بھی ہوا کہ ہمیں اس بات پر پھر غور کرنا ہو گا کہ آیا اِن چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے ہم اپنے اثاثوں کو موثر انداز سے استعمال کر رہے ہیں۔ اوباما کے یہ الفاظ منگل کے روز اس وقت سامنے آئے جب امریکی وزیر دفاع Ash Carter کی جانب سے عراقی افواج پر تنقید سامنے آ گئی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ رمادی میں دولت اسلامیہ کی پیش قدمی کو روکنے کے لیے مقابلہ کرنے کی جگہ عراقی افواج نے پسپائی کو ترجیح دی۔ عراقی وزیر اعظم حیدر العبادی کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ ان کی حکومت کو Ash Carterکے بیان پر حیرت ہوئی۔ انھوں نے پیر کے دِن ایسو سی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ  ایک واقعے کو مدنظر رکھ کر  ہم ساری فوج کے کردار کے خلاف فیصلہ صادر نہیں کر سکتے۔ وائٹ ہائوس کے ترجمان Josh Earnest نے منگل کے روز کارٹر کے بیان کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ عراقی حکومت نے تسلیم کر لیا ہے کہ رمادی میں اختیار کی گئی پسپائی کمان اور منصوبہ بندی کے ٹھپ ہونے کا نتیجہ تھا۔ مزید برآں Josh Earnest نے کہا کہ رمادی میں عراقی افواج نے امریکہ اور اتحاد سے حاصل کی گئی تربیت سے استفادے کا مظاہرہ نہیں کیا۔ پینٹاگان کے ترجمان کرنل اسٹیو وارن نے منگل کو اس بیان کی وضاحت کرتے ہوئے اس بات کی جانب دھیان مبذول کرایا کہ عراقی افواج نے دشمن کا صفایا  کیا، لیکن پھر بھی فوج نے پسپائی اختیار کر لی۔

No comments.

Leave a Reply