روس کا جوہری ہتھیاروں کی تعداد بڑھانے کا اعلان

ماسکو کے مغرب میں واقع کوبنکا میں آرمی 2015ء انٹرنیشنل ملٹری فورم کے افتتاح کے موقع روسی صدرپیوٹن پر تقریر کرتے ہوئے

ماسکو کے مغرب میں واقع کوبنکا میں آرمی 2015ء انٹرنیشنل ملٹری فورم کے افتتاح کے موقع روسی صدرپیوٹن پر تقریر کرتے ہوئے

ماسکو ۔۔۔ نیوز ٹائم

روسی صدر ولادی میر پوٹن نے اس سال کے دوران اپنے جوہری ہتھیاروں میں مزید 40 نئے بین البراعظمی بیلسٹک میزائل شامل کرنے کا اعلان کیا ہے۔ انھوں نے یہ بات دارالحکومت ماسکو کے مغرب میں واقع کوبنکا میں آرمی 2015ء انٹرنیشنل ملٹری فورم کے افتتاح کے موقع روسی صدرپیوٹن پر تقریر کرتے ہوئے کہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ 40 سے زیادہ بین البراعظمی بیلسٹک میزائلوں کے علاوہ جدید ترین میزائل دفاعی نظام کو بھی جوہری ہتھیاروں کے ذخیرے میں شامل کیا جائے گا۔ روس کے بین البراعظمی بیلسٹک میزائلوں کی مار کرنے کی کم سے کم صلاحیت 5 ہزار 500 کلو میٹر ہے۔ صدر پوٹن نے اس کی مزید تفصیل نہیں بتائی کہ وہ کون سے میزائل جوہری ہتھیاروں کے ذخیرے میں شامل کیے جا رہے ہیں۔ تاہم وہ ماضی میں متعدد مرتبہ یہ کہہ چکے ہیں کہ روس کو بڑھتے ہوئے سیکیورٹی خطرات سے نمٹنے کے لیے اپنی جوہری دفاعی صلاحیت برقرار رکھنی چاہیے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ماسکو کریمیا میں جوہری ہتھیار نصب کرنے کا حق محفوظ رکھتا ہے۔ ولادی میر پوٹن کے اس اعلان سے صرف ایک روز قبل روسی حکام نے امریکا کے روس کی سرحد کے ساتھ واقع نیٹو تنظیم کے رکن ممالک میں ٹینک اور بھاری ہتھیار نصب کرنے کے منصوبے کی مذمت کی تھی اور اس کو امریکا کی جانب سے سرد جنگ کے خاتمے کے بعد سب سے جارحانہ اقدام قرار دیا تھا۔ روسی حکام نے خبردار کیا تھا کہ اگر امریکا نے مشرقی یورپ اور بالٹک ریاستوں میں بھاری فوجی آلات نصب کیے تو ماسکو اس کا جواب دے گا۔ روسی خبر رساں ایجنسی آر آئی اے کے مطابق نائب وزیر دفاع اناتولے انتونوف نے آرمی میلے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ”نیٹو سے تعلق رکھنے والے ہمارے دوست ہمیں اسلحے کی دوڑ پر مجبور کر رہے ہیں”۔ صدر پوٹن نے اپنی تقریر میں اس جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ روس اسلحے کی نئی دوڑ میں شامل نہیں ہو گا۔ البتہ وہ اپنی مسلح افواج کو جدید ہتھیاروں سے لیس کر رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس وقت فوج کے زیر استعمال 70 فیصد سے زیادہ فوجی آلات اور ساز و سامان کو 2020ء تک جدید اور اعلیٰ معیار کا بنا دیا جائے گا۔ روس ایسے وقت میں دفاع پر بھاری رقوم خرچ کر رہا ہے جب اس کی معیشت عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں کمی کے سبب دبائو کا شکار ہے اور وہ امریکا کے ساتھ محاذ آرائی کی وجہ سے اپنے عوام کی سماجی ضروریات کو پورا کرنے کے بجائے جدید ہتھیار بنانے پر زور دے رہا ہے۔ روسی صدر کے مذکورہ اعلان کے بعد مغربی ممالک کی جانب سے سخت ردعمل سامنے آ سکتا ہے۔ روس کی امریکا کی قیادت میں مغربی ممالک کے ساتھ گذشتہ ڈیڑھ سال سے زیادہ عرصے سے یوکرائن کے تنازعے پر محاذ آرائی چل رہی ہے۔ روس یوکرائن کے مشرقی علاقے میں روسی زبان بولنے والے علیحدگی پسندوں کی حمایت کر رہا ہے۔ اس نے 2014ء کے اوائل میں یوکرائن کے علاقے کریمیا کو ایک متنازعہ ریفرینڈم کے بعد ضم کر لیا تھا۔ اس کے ردعمل میں یورپی یونین اور امریکا نے سرکردہ روسی عہدے داروں پر پابندیاں عائد کر دی تھیں اور روس کی گروپ آٹھ جیسے فورمز کی رکنیت بھی معطل کر دی تھی۔

No comments.

Leave a Reply